صرف شاعری نہیں، تخلیقِ علم کی بھی ضرورت ہے

آصف جاوید

شاعری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ شاعری  اظہار  کا سب سے موثّر ذریعہ ہے، شاعری کا وجود اس وقت سے ہے، جب سے انسان نے بولنا سیکھا ہے۔ انسانی تہذیبی ارتقاء کے بالکل  ابتدائی دور میں  جب کہ ابھی صرف  اشارے اور علامات ہی تخلیق ہوئی تھیں،  تحریروں کا کوئی وجود نہیں تھا، اس وقت  بھی  قبیلوں کے اجتماعات میں عوام سے موثّر  رابطوں  کے لئے شاعری  کو ذریعہ اظہارِ بنایاجاتا تھا، چونکہ  شاعری میں  رِدھم  ہوتا ہے،  موسیقی ہوتی ہے، الفاظوں کی بندش ایک قاعدے اور قرینے میں ہوتی ہے، ردیف  ہوتی ہے، قافیہ ہوتا ہے، اس لئے  اظہارِ بیان میں بھی  اثر ہوتا ہے۔

شاعری میں    چونکہ غنائیت ہوتی ہے، وجدان ہوتا ہے، سحر ہوتا ہے، رمز ہوتا ہے، فلسفہ ہوتا ہے۔  لچک ہوتی ہے، گنجائش ہوتی ہے۔  اسلئے  شاعری میں ہر طرح کے مضامین بیان کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ۔ برِّ صغیر میں شاعری کی روایات کئی ہزار سال پر محیط ہیں۔  چونکہ برِّ صغیر کے  کثیر الثقافت معاشرے کے رنگ اور مذہبی روایات   کا منبع زیادہ تر قصّے کہانیوں،  اور زبانی روایات پر مشتمل ہے، لہذا  ِ ن معاشروں میں شاعری مقبولِ عام ہے۔

اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود شاعری صرف ذریعہ اظہار ہے، عِلم نہیں ہے۔ دنیا کے کسی  معاشرے میں شاعری کو عِلم تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔علم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب انسان کا شعوری  و فکری ارتقاء ہوتا ہے تو  سماج میں نئے خیالات اور افکار پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر ان افکارو خیالات کے  سیدھے سادھے اور براہِ راست بیان کے لئے شاعری کے بجائے نثر کو اختیار کیا جاتا ہے۔اس ہی  لئے کہا جاتا ہے کہ جب  کوئی سماج ابلاغ کے لئے شاعری سے نثر کی جانب رواں ہوتا ہے  تو علم تخلیق ہوتا ہے، کتابیں تخلیق ہوتی ہیں۔

ہمارے دوست اور ممتاز مفکّر جناب ارشد محمود کا  شاعری کے بارے میں کہنا ہے کہ

ہمارے معاشرے کو علمی وفکری لحاظ سے شاعری نے بھی بڑا بگاڑا ہے۔ یہاں سنجیدہ اور فکری ادب تخلیق کرنے کی روائت مضبوط نہ ہوسکی ہے۔ شاعری انسان کو کچھ نہیں دیتی۔ بس زبان اور دماغ کا تھوڑی دیر کا چسکا ہوتا ہے۔ شاعری سے قومیں نہیں بنتی۔ ہمارے فکری زوال میں شاعری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔۔ کچھ دانشور اس کی توضیح یہ دیتے ہیں۔ کہ ہمارے ہاں آزادی اظہار پر قدغنیں لگتی رہی ہیں۔ خوف کا ماحول رہا۔ مذہب اور ریاست کی طرف سے، اس لئے یہاں سنجیدہ علمی موضوعات پر لکھنا کم ہوگیا۔ اور شاعری نے نثر کی بھی جگہ لے لی۔  

ہم فلسفہ و فکر، تہذیب، تاریخ ، معاشیات  اور سماجیات سے متعلقہ کتابیں پڑھنے والے لوگ  ہیں۔ 400 صفحوں  کی کتاب ہے تو کم از کم 300 صفحوں کا مواد آپ کے شعور کو علمی ، فکری، معلوماتی لحاظ سے کہاں سے کہاں پہنچا دے گا۔۔۔ نثر لکھنا بڑا مشکل کام ہے۔۔  جب آپ 50 کتابیں پڑھیں گے ،تب ایک کتاب لکھ سکیں  گے۔ شاعری بڑا آسان کام ہے۔۔ آپ کو ہردوسرا نوجوان شاعری کرنے کے دعوے کے ساتھ ملے گا۔۔ اور وہ اس گماں میں بھی ہوگا۔۔ کہ وہ بڑا نہیں تو ایک معقول  درجے کا شاعر ضرور ہے۔ شاعری کے لئے مطالعہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔۔ لوہارا ، ترکھانہ کام ہے۔۔ فقط لفظ ٹھوکتے جائو۔ شعر لکھتے جاو۔۔ عام سی سادہ سی بات کو ردیف،قافیہ، وزن میں کردو۔ بڑی اور کوالٹی کی شاعری کے لئے بڑے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وسیع مطالعہ ہونا ضرور ی ہے، انسان، زندگی اور کائنات کے سلسلوں کو حساسیت کے ساتھ سمجھنا پڑتا ہے۔ 

ہمارے سماج میں تخلیق وترویجِ علم  سے بیگانگی اور بے رغبتی  اور شاعری  کی بے پناہ مقبولیت کے تناظر میں ہمارا اپنا بھی یہی خیال ہے کہجب کوئی سماج فکری طور پر بانجھ ہوتا ہے تو ایسے سماج میں دلیل ،منطق، نئے خیالات،  نئے افکار، نئی سوچوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ،  سائنسی، معاشی، سماجی و سیاسی مسائل پر  تحقیق، گفتگو اور مذاکرات کا چلن ،فکری طور پر بانجھ معاشروں میں ممکن نہیں  ہوتا ہے۔

نوجوانوں کے اس رویّے پر  شدید مایوسی کے عالم میں  ہمارا کہنا ہے کہ  پیارے وطن کے نوجوانوں  کو  سوتے سے نہ جگا یا جائے، انہیں ابھی رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھنے  دیا جائے، کیونکہ  وطنِ عزیز  کے نوجوانوں کو سماجی ترقّی کے لئے سائنسدانوں، فلسفیوں، مفکّروں اور سماجی علوم کے ماہرین کے خیالات جاننے کی کی قطعاضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی قطعی ضرورت نہیں ہے جو معاشرے کی ذہنی حالت کو اپنے خیالات کے ذریعہ بدل سکیں۔  ہمارے نوجوانوں کو جذبات اور غیر عقلی خیالات پر مبنی شاعری چاہئے، جو جذبات وخیالات  میں ہیجان تو برپا کرسکے، مگر دماغ میں شعور پیدا نہ کرسکے۔

  وطنِ عزیز میں نوجوانوں  کو  ایسا کچھ نہیں چاہئے،  جو  سوچ و فکر میں تبدیلی پیدا کرسکے، اہلِ  وطن ایسی کسی سوچ کو قریب آنے دینا نہیں چاہتے جو سماجی رویوں، عادات، ماحول، زبان اور روزمرہ کی زندگی پر اثرانداز ہو سکے ۔وطنِ عزیزکے اہلِ ادب، فکری طور پر ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ وہ شاعری سے آگے کچھ سوچ سکیں۔ یہ بالکل ایسی ہی مماثلت ہے کہ جب انگریز ہندوستان پر قبضہ جمارہا تھا تو مغل حکمرانوں کے درباروں میں رات میں مشاعرے برپا ہو رہے ہوتے تھے۔

اگر وطنِ عزیز کو جہالت اور پسماندگی سے نکالنا ہے تو،ہمارے نوجوانوں کو شاعری کی مصنوعی رومانیت سے نکل کر حقیقی زندگی کے چیلینجز قبول کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا،   تحصیل علم کے ساتھ ساتھ ترویجِ علم اور اگلے مرحلے میں تخلیقِ علم پر توجّہ دینی ہوگی،  تاریخ، فلسفہ، معاشیات و دیگر سماجی علوم کے ساتھ ساتھ ، سائنس و ٹیکنالوجی  کے میدان  میں تحقیق،  ایجادات اور علم تخلیق کرنے کی ضرورت محسوس کرنی ہوگی، ورنہ جہالت و پسماندگی ہمارا مقدّر رہے گی۔  وما علینا الالبلاغ

One Comment