ہندو لڑکیوں کا اغوا اور ریاست کی خاموشی

گھوٹکی کی تحصیل ڈھرکی سے انیس مارچ کو اغوا ہونے والی بارہ سالہ رینا اور چودہ سالہ روینا نے بائیس مارچ کو رحیم یار خان کی تحصیل خانپور کٹورہ کی درگاہ دین پور میں اسلام قبول کرلیا اور انہیں اغوا کاروں صفدر علی کوبھر اور برکت ملک سے نکاح بھی کرلیا۔

نکاح کی وڈیو وائرل ہونے سے ایک روز پہلےگھوٹکی پولیس نےگذشتہ روز یعنی اکیس مارچ کو دونوں اغوا کاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیاتھا۔

دو کمسن بہنوں کے اغوا کا واقعہ اس وقت ہوا جب سندھ میں ہندو برادری رنگوں کے تہوار ہولی منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔خوشی سے سرشار بچے اور بڑے رنگ اور پچکاریاں خریدی رہے تھے۔۔ایسے ماحول میں ڈھرکی کےگاؤں حافظ سلیمان کے رہائشی ہری رام میگھواڑ کی دو کمسن بیٹیوں کو اغوا کیا گیا۔ کمسن بہنوں کے اغوا کے خلاف میگھواڑ برادری نے قومی شاہراہ پر دھرنا دیا۔جس پر پولیس لڑکیوں کو بازیاب کرانے کے بجائے فریق بن گئی۔

مقامی ذرائع کے مطابق ایس ایس پی گھوٹکی فرخ لنجار نے چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کا بیان ریکارڈ کروا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرا دیا۔۔ لڑکیوں کی بازیابی کے لئے میگھواڑ برادری کے احتجاج میں اپر کلاس کے ہندؤں نے شرکت نہیں کی تھی۔۔اس احتجاج میں بھی اونچے طبقے کے ہندوؤں نے شرکت نہ کی اور خود کو معاملے الگ رکھا۔۔

اونچے طبقے کے ہندو اکثر خود کو نچلے طبقے سے الگ تھلگ رکھتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خود کو درپیش مسائل کے مواقع پر میگھواڑ، بھیل، کولہی، بالمیکی سمیت دیگر نچلی طبقوں سے وابستہ ہندو خواتین و حضرات کو احتجاج میں شریک کرنے کے ساتھ اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔لیکن نچلے طبقے کی ضرورت کے وقت اونچے طبقے والوں نے ہمیشہ ہی خاموشی اختیار کی ہے۔

اس ساری صورتحال میں ریاست اقلیتوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام نظر آئی ہے۔لیکن اس میں ہندو برادری کے منتخب اراکین اسمبلی اور وزرا کی مجرمانہ خاموشی بھی قابل مذمت ہے۔صوبائی وزیر رمیش کمار چاولہ یا ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار سمیت تمام ارکان اسمبلی اپنے اپنے

مفادات کے لئے تو ایوان میں بات کرتے اور چیختے چلاتے نظر آتے ہیں لیکن ہندو لڑکیوں کے اغوا، جبری مذہب کی تبدیلی سمیت برادری کو درپیش دیگر مسائل پر چپ رہتے ہیں۔

کوی شنکر

Comments are closed.