ارون دھتی رائے ، وزیر اعظم مودی اور پاک بھارت جنگی جنون

ارون دھتی رائے لیفٹسٹ نظریات کی حامل بھارت کی مشہور رائٹر ہیں ۔ انھوں نے پاک بھارت جنگی جنون کے تناظر میں ایک مضمون لکھا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت میں الیکشن ہونے جارہےہیں اور سیاسی پارٹیا ں ایک دوسرے پر الزام تراشیاںکر رہی ہیں جو کہ الیکشن کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بھارتی انٹیلی جینشیا کی ایک بڑی تعدادوزیر اعظم مودی سے پہلے دن سے ہی نفرت کرتی ہے اور جب وہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو باقاعدہ ماتم کیا گیا تھا ۔

ارون دھتی رائے کا یہ مضمون اسی نفرت کا اظہار کا ہے۔ جو ایک سازشی تھیوری کے گرد گھومتا ہے ۔ان کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ مودی الیکشن جیتنے کے لیے پاک بھارت جنگی جنون کو بڑھا رہا ہے۔ جی ہاں یہ ارون دھتی رائے ہی تھی جس نے ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام ملنےپر اسے امریکی سازش قرار دیا تھا۔

چونکہ ان کا نشانہ مودی اور اس کی سیاست ہے لہذا انھوں نے بہت سے حقائق کو جان بوجھ کر یا نفرت کی وجہ سے درست طور پر ذکر نہیں کیا۔ جس سے پاکستان کی جہادی ایسٹیبلشمنٹ کو شک کا فائدہ مل جاتا ہے اور وہ بھی ارون دھتی رائے کے مضمون کو بطور حوالہ پیش کرتی ہے۔

حملہ جیش محمد نے کیا ، جس میں چالیس فوجی ہلاک ہوئے لیکن جنگی جنون کا ذمہ دار مودی کوقرار دے دیا گیا۔اسے کہتے ہیں ہاتھ کی صفائی۔بھارت کے ایک سرجیکل سٹرائیک پر محب وطن پاکستانیوں کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوگئی ہے اور وہ پاکستان آرمی کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں ۔ ذرا سوچیں کہ پاکستانی جہادی تنظیمیں پچھلے کئی سالوں سے بھارتی شہروں اور چھائونیوں پر حملے کر رہی ہے تو بھارت کے محب وطن شہریوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔

حالیہ پاک بھارت جنگی جنون کشمیر میں جیش محمد کے دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے شروع ہوا۔ یہ حملہ جیش محمد کے ایک کارکن عادل احمد ڈا ر جو کہ کشمیری ہیں نے کیااور ویڈیو بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اور پاکستانی حکومت اب جیش محمد کے خلاف کاروائی بھی کر رہی ہے۔ لیکن ارون دھتی رائے کو شک ہے کہ خود کش حملہ آور واقعی جیش محمد کا کارکن ہے ؟۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے وہ لشکر طیبہ کے کارکن افضل گرو کو بھی ہیرو قرار دے چکی ہیں ۔

وہ مودی پر الزام لگاتی ہیں اس نے کشمیر تنازعہ کو بین الاقوامی روپ دے دیا ہے۔حالانکہ یہ کام پاکستان کا ہے جو کشمیر کو دنیا کے ہر فورم پر پیش کرتا ہے۔ لیکن اب دنیا نے ہمارے بیانیہ پر اعتبارکرنا بند کردیا ہے۔

ارون دھتی رائے لکھتی ہیں کہ تقریباً پانچ لاکھ ہندوستانی فوجی کشمیر میں تعینات ہیں اور ملک بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا جال اس کے علاوہ ہے۔ جو کشمیریوں کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے ۔ اور کشمیریوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔لیکن انھیں شاید یہ معلوم نہیں پاکستان کے تین صوبوں بشمول فاٹا میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔

مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے عام لوگوں میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔اسی لیے دہشت گردی کی واردات کرکے انسانی آبادیوں خاص کر کسی سکول کے اندر یا اس کے ارد گرد پناہ لیتے ہیں اور یہی طریقہ واردات حماس کا بھی ہے۔جب سیکیورٹی فورسز کاروائی کرتی ہیں تو معصوم لوگ بھی مارے جاتےہیں جس سے انہیں عالمی رائے عامہ کی ہمدردیاں بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔

ارون دھتی رائے نے مودی کی سماجی و معاشی پالیسیوں پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ غربت کی بات کر رہی ہیں۔ سماج میں ہندو بنیاد پرستی کی بات کر رہی ہیں۔ بے شک آر ایس ایس ایک فاشسٹ تنظیم ہے لیکن پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اسے اتنا اچھالا جاتا ہے کہ پاکستانی جہاد ی تنظیموں کا کردار پس منظر میں غائب ہوجاتا ہے۔۔

لیکن کیا کسی پاکستانی دانشور نے پاک فوج اور اس کے جہادی کردار پر کوئی تنقید کی ہے۔ کیا کسی نے یہ بھی بتایا ہے کہ جہادی لشکروں کی وجہ سے اس خطے کا امن تباہ ہورہا ہے؟کیا کوئی پاکستانی دانشور ہے جو کھل کر فوجی اخراجات پر تنقید کر سکے؟ پچھلے ماہ مشہور بین الاقوام میگزین اکنامسٹ کی روپورٹ کے مطابق پاکستان کی غربت کی ذمہ دارپاکستان کے دفاعی اخراجات ہیں ۔

اسے بھارت کی کامیاب ڈپلومیسی ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے اتحادیوں نے بھی بھارتی حملے کی مذمت نہیں بلکہ پاکستان کو بات چیت کا مشورہ دیا ہے اور اب انہی اتحادیوں کے دباو پر ہی جہادی تنظیموں پر پابندی لگانے یا ان کے کچھ ارکان گرفتار کیے جارہےہیں۔

بھارتی شہری اپنے ہاں جاری انتہا پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں ہمیں اپنےہاں جاری انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی کوئی ارون دھتی رائے جیسا دانشور سامنے نہیں آ سکا جس نے ریاستی ظلم و جبر کی نشاندہی کی ہو اور کھل کر مخالفت کی ہو۔ بھارت میں تو پھر جمہوریت ہے جہاں اس کا نقطہ نظر برداشت کر لیا جاتا ہے مگر پاکستان میں اگر کوئی ایسا لکھے تو وہ غائب ہوجاتا ہے۔

شعیب عادل

Comments are closed.