غربت  کے خاتمے کا پروگرام ، کیا غربت ختم کرسکے گا؟

آصف جاوید

گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے  سماجی تحفّظ اور غربت  کے خاتمے کے لئے پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم عمران  خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لئے ایک وسیع  پروگرام احساسکے نام سے شروع کیا جارہا ہے، جِس میں  اخراجات  کے لئے اس سال  80 ارب روپے  کی رقم مختص کی گئی ہے،  جو اگلے  سال بڑھا کر  120 ارب روپے کر دی جائے گی۔ پروگرام  کے تسلسل اور باقاعدہ نگرانی کے لئےغربت کے خاتمے کی وزارت”  بھی قائم کی جا رہی ہے ۔ جو پروگرام کی کامیابی کو یقینی بنائے گی۔

وزیرِ اعظم نے اعلان کیا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کو بنیادی شہری حقوق قرار دیا جائے گا۔ وزیرِ اعظم نے حوالہ دیا  کہ آئین  کی شِق (38 ڈی )ہر شہری کی  سماجی، اور معاشی  خوشحالی کے لئے ریاست کو پابند کرتی ہے۔  وزیر اعظم نے پاکستان سے غربت کے خاتمے کے لئے جن اقدامات کا اعلان کیا اُس میں سرِ فہرست خواتین کی معاشی خودکفالت ، ایک عورت، ایک بنک اکاونٹ اسکیم کا تعارف، مزدوروں اور کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے، معذور افراد، خواجہ سراوں، اور بے روزگاروں کی معاونت، سٹریٹ چلڈرن کے لئے مفت تعلیم، بے گھر افراد اور خانہ بدوشوں کے لئےراحت، بھٹّہ مزدوروں، بانڈیڈ لیبر، چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے اقدامات شامل ہیں۔  وزیرِ اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ ملک میں غریبوں کی مدد کے لئے چلنے والے  مختلف پروگرام اور ادارے جیسے بیت المال، زکوۃ فنڈ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو یکجا کرکے غربت کے خاتمے کی وزرات  کے زیرِ انتظام کردیا جائے گا۔

ورلڈ بنک نے غربت کی جانچ کا جو پیمانہ مقرّر کیا ہے، اس کے مطابق ہر وہ شخص جس کی یومیہ آمدنی 2 امریکی ڈالر سے کم ہے، غریب تصوّر کیا جاتا ہے۔  2 ڈالر یومیہ آمدنی کا بنچ مارک خطِ غربت کہلاتا ہے۔  ماہرینِ معاشیات کے مطابق اگر ورلڈ بینک کے معیار (دو ڈالر یومیہ آمدن )  کو   سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں غربت کا جائزہ لیا جائے تو تقریبا” 60 سے 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔

نومبر 2018 میں ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جِس میں بتایا گیا تھا کہ  پاکستان میں غربت کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2001 میں پاکستان میں غربت کی شرح 60 فیصد تھی جو 2014 میں کم ہو کر 30 فیصد رہ گئی۔ مگر یہ اعدادو شمار قابلِ بھروسہ نہیں ہیں،  کیونکہ پاکستان میں پسماندہ اور محروم طبقات کی نشاندہی اور غربت کے معیار کی جانچ کے لئے باقاعدہ اعدادو شمار کا کوئی ڈیٹا بیس  موجود ہی نہیں ہے۔  تمام اعداد و شمار اندازوں اور قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔

  بہر حال وزیرِ اعظم عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت اس سال دسمبر کے آخر تک پاکستان میں  پسماندہ طبقات کی واضح نشاندہی کرے گی،  غربت سے متاثّرہ طبقات  کی صحیح تعداد اور انکی آمدنی کی صورتحال کا جائزہ لے گی  اور اعدادو شمار کا باقاعدہ ڈیٹا بیس قائم کرے گی۔  یہاں ہم اپنے قارئین کو  یہ بات واضح کرتے چلیں کہ پاکستان میں گذشتہ حکومتوں نے غربت کے معیار و مقدار کی صورتحال پر اعدادو شمار  میں جان بوجھ کر ہیرا پھیری کی ہے، گذشتہ حکومتوں کی جانب سے پاکستان میں غربت کی شرح 17 فیصد  دکھائی گئی ہے ،  جو کہ ایک سفید جھوٹ ہے۔

 غربت  کوئی آسمانی عذاب نہیں ہے۔ یہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم  اور سماجی ناانصافی، مفلوج نظامِ عدل  اور افرادی قوّت کی جہالت اور  پسماندگی ، ریاستی اداروں   کی ناکامی ،  اور  ناقص حکومتی پالیسیوں   کا  نتیجہ ہے۔

  پاکستان میں گذشتہ 70 سالوں میں کسی حکومت نے غربت کے خاتمے کے لئے کوئی باقاعدہ اور جامع پروگرام شروع نہیں کیا۔  بہت ہی محدود پیمانے پر بیت المال، زکوۃ فنڈ، اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے  سیاسی بنیادوں یا تعلّقات کی بنیاد پر غریب لوگوں کی بہت معمولی رقم سے  ماہانہ امداد کی جاتی رہی ہے۔   جو غربت کے خاتمے میں کمی کے اقدامات کے زمرے میں قطعی  نہیں آتی ہے۔

 غربت کا خاتمہ صرف پیسے بانٹنے سے ممکن نہیں  ہوتا، غربت کے خاتمے کے لئے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہوتے ہیں۔  جِس کے لئے   تجارتی  اداروں اور چھوٹی و بڑی صنعتوں  جال بچھانا ہوتا ہے، انفرااسٹرکچر قائم کرنا ہوتا ہے۔   پیداوار اور ایکسپورٹ بڑھا نا ہوتی ہے۔ پبلک سے ٹیکس وصولی کا جامع نظام قائم کرنا پڑتا ہے، قومی آمدنی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے تاکہ ترقّیاتی منصوبوں پر خرچ کے لئے فنڈز کی کمی کا سامنا نہ ہو۔   

غربت کے خاتمے کے لیے سیاسی آمادگی،  خلوصِ نیت، اور  تسلسل سے معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔  پاکستان سے اگرغربت ختم کرنا ہے تو  ہمیں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ تلخ فیصلے کرنے ہوں گے، ہمیں   تجزیاتی فکر  سے کام  لینا ہوگا،  اور ان  عوامل کا تعیّن کرنا ہوگا جو ہماری پسماندگی کے زمّہ دار ہیں۔ یہ بہت نازک مرحلہ ہے، کیونکہ  پسماندگی کے ذمّہ داروں کا تعیّن کرتے ہوئے کُھرے کے نشان اُن   سرمایہ دوروں، جاگیر داروں، وڈیروں، سرداروں، سیاستدانوں،  مقدّس ہستیوں  ، اداروں اور مقتدرگریبانوں تک بھی پہنچیں گے، جو قومی  دولت اور وسائل   کو  یرغمال بنائے بیٹھے ہیں۔  جو بائیس کروڑ عوام کی امنگوں اور  زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو اپنی مذموم خواہشات  کی بھینٹ چڑھائے بیٹھے ہیں۔

ہمیں قومی دولت اور قومی وسائل پر سے  ناجائز قبضہ ختم کروا  نا ہوگا،  قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ختم کرکے امیر اور غریب کے امتیازی فرق کو ختم کرنا ہوگا۔  ہمیں اُن ایریاز کا تعیّن کرنے کی ضرورت  ہوگی،   جہاں باقاعدہ  نظام ترتیب دے کر     پاکستان میں پائیدار اور موثّر  سیاسی، سماجی  اور معاشی تبدیلیاں  لائی جاسکتی ہیں۔     غربت کا خاتمہ صرف اور صرف ایک مضبوط اور موثّر سیاسی، سماجی و معاشی نظام کے تسلسل سے ہی ممکن ہے۔  پیسے بانٹنے یا غریب کی مالی مدد کرنے سے غربت ختم نہیں ہوتی۔     وما علینا الالبلاغ

Comments are closed.