کیا یہ وہی پاکستان ہے

جمیل خان

اس وقت ملک کی افرادی قوت میں شامل ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں، جنہوں نے زیاں الحق کے دورِ سیاہ میں یا اس کے بعد آنکھیں کھولیں۔ بعد کے ادوار میں دورِ سیاہ کے اثرات زیادہ شدت سے ظاہر ہوئے، چنانچہ بعد از زیاں الحق کے دور کو کسی طرح صبح روشن نہیں کہا جاسکتا۔

ان میں سے زیادہ تر جن کی عمریں پچیس سے چالیس برسوں کے درمیان ہیں، ان کی معلومات کا منبع یا فکری بنیاد قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، بانو قدسیہ و اشفاق احمد اور ان کے متاثرین و متاخرین کی کتابیں اور نسیم حجازی اور ان کی پیروکاروں کی کہانیاں اور ناول ہیں۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی تعداد بھی اکثریت میں بہت کم ہے، زیادہ تر ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے الحمدللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے، اور ان کی معاشرتی، سیاسی، اخلاقی اور بین الاقوامی معاملات کی تمام دانش کا ذریعہ ٹی وی کے نیوز چینلز کے ٹائپ کے دنگل نما ٹاک شوز ہیں۔ جن میں کچھ لوگ شُوز سے متعلق ہوتے ہیں تو کچھ عمامہ سے….۔

موجودہ افرادی قوت کے ساتھ ملک مسلسل پستی کی جانب گامزن ہے۔چونکہ اس نسل نے پاکستان کو اسی طرح ترقیٔ معکوس کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے، چنانچہ وہ اسی کو ترقی خیال کرتے ہیں۔

ہم نے ان تمام لوگوں سے مختلف قسم کا پاکستان دیکھ رکھا ہے۔ یہ وہ پاکستان تھا، جس کے شہر کراچی جیسا خوبصورت شہر جنوب مشرقی ایشیاء سے لے کر خلیج عرب تک کسی ملک میں نہیں تھا۔ اس دور میں کراچی کی پچیس منزلہ حبیب پلازہ جیسی بلند و بالا عمارت اِس پورے ریجن میں نہیں تھی۔

ہماری رہائش حیدرآباد میں تھی۔ ننہیال کراچی کے مضافاتی علاقے سادات کالونی میں تھا۔ ان دنوں ڈرگ روڈ، ڈرگ روڈ ہی تھا، اس کو عربینائزڈ نہیں کیا گیا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ غیرملکی سربراہ جب پاکستان کا دورہ کرتے تو اکثر ڈرگ روڈپر ان کا شاندار استقبال کیا جاتا تھا۔ 

ہم بھی اپنے والد یا اپنی خالہ کے ساتھ ایسے کئی استقبال کو دیکھ چکے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسی گاڑی میں اپنے ہم منصب غیرملکی مہمان کے ہمراہ بیٹھے ہوتے تھے، جس کی چھت نہیں ہوتی تھی، اور جب استقبال کرنے والے بچوں کی قطار اور ان کے پیچھے کھڑے دیگر لوگوں کے نعروں کی آوازیں گونجتیں تو مہمان اور میزبان دونوں مسکراتے ہاتھ ہلا کر ان کا جواب دیا کرتے۔

ایک مرتبہ کی یاد تو یہ ہے کہ کسی بچے کی آواز سن کر وزیراعظم پاکستان نے گاڑی رکوائی، اترے اور بچے کو پیار کیا اور دوبارہ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ مہمان سربراہِ مملکت پر اس معمولی سی بات کا کس قدر غیرمعمولی اثر ہوتا ہوگا، ہم آج بھی اکثر سوچتے ہیں۔

زیاں الحق کے دورِ سیاہ میں اور اس کے بعد وزیراعظم کو تو چھوڑیے، غیرمعروف وزیروں کی سواریوں کے لیے شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں اور سیاہ شیشوں والی درجنوں گاڑیاں ہٹو بچو کرتے دربانوں کے ہمراہ فراٹے بھرتے ہوئے گزر جاتی ہیں۔ 

بچپن میں ہم نے دو آئیڈیل بنا رکھے تھے۔ پہلا آئیڈیل تو ہمارے ماموں تھے، جو پنجاب میں رہتے تھے اور کبھی کبھی ہی کراچی آیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی شخصیت کا کچھ ایسا اثر تھا، کہ ہم ان کی ہر ہر بات کو نقل کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ وہ انگریزی، پنجابی، پشتو اور سندھی روانی سے بول لیتے تھے۔ پنجابی کے شمالی اور جنوبی لہجوں پر بھی پورا عبور تھا۔ انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ 

کراچی کے رشتہ دار انہیں اچھا نہیں سمجھتے تھے، اور انہیں پیٹھ پیچھے کافی برا بھلا کہتے تھے، بعض اوقات ان کے سامنے بھی کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ ان کا ماڈرن لائف اسٹائل تھا۔ اس وقت کراچی پر مذہبی جماعتوں کا غلبہ تھا۔ ہماری عمر اس وقت شاید آٹھ دس برس کی رہی ہو، ہم پر ان کی یہ ساری باتیں سخت گراں گزرتی تھیں۔ 

ماموں کے علاوہ ہمارا دوسرا آئیڈیل ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں گاڑی سے اترتے ہوئے اور اپنے پورے قد سے کھڑے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں بھی ہمارے تمام رشتہ دار برا بھلا کہتے تھے بلکہ کچھ تو متقی پرہیزگار لوگ انہیں گالیاں تک دے دیتے تھے۔ 

اس دور میں جب ہم حیدرآباد سے کراچی آیا کرتے تو ہمارے لیے دو چیزیں انتہائی کشش کا باعث ہوا کرتی تھیں۔ ایک تو ٹرین کا سفر، دوسرے کراچی میں نانا کے گھر کے سامنے آسمان پر ہر ایک آدھ منٹ کے بعد جہاز کو گزرتے دیکھنا۔ ہم بچے آپس میں مقابلہ کرتے تھے کہ یہ جہاز کس ملک کا ہے، جہاز کی دُم مذکورہ ملک کے پرچم سے رنگی ہوتی تھی۔ ایئرپورٹ قریب تھا اور جہاز ہمارے سامنے سے گزرتے ہوئے زیادہ بلندی پر نہیں ہوتا تھا، یوں اس پر لکھے ہوئے الفاظ بھی باآسانی پڑھے جاسکتے تھے۔

آج کے پاکستان کے اسی شہر کراچی میں کتنی غیرملکی جہازراں کمپنیوں کے جہاز اترتے ہیں؟

آج کے وزیراعظم کھلی گاڑی میں عوام کے ہجوم کے درمیان میں کسی غیرملکی سربراہ کو لے کر گزر سکتے ہیں؟

پی آئی اے دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں کی صف اول میں شامل تھی۔ دنیا بھر سے بہت سے انجینئرز اور ٹیکنیشنز کراچی ایئرپورٹ پر تربیت حاصل کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ کراچی کے ساحل پر گورے تیراکی کے لباس میں بے خوف لیٹے بیٹھے ہوا کرتے تھے۔

زیب النساء اسٹریٹ پر غیرملکیوں کی بڑی تعداد کسی بھی وقت دیکھی جاسکتی تھی۔ 

یہ وہ پاکستان نہیں ہے، جو ہم نے دیکھا تھا….!

یہ پاکستان قدرت اللہ شہابوں، ممتاز مفتیوں، اشفاق بانوؤں، نسیم حجازیوں، نے دورِ سیاہ میں پروان چڑھایا، اور صفدرمحمودوں، زیڈ اے سلیریوں، کوثر نیازیوں نے اس کی آبیاری کی اور اب حامد میریوں، شاہد مسعودوں، انصار عباسیوں، اوریا مقبول جانوں، زید حامدوں کی زہریلی سوچ رکھنے والے کروڑوں سانپ آزاد پھر رہے ہیں۔


Comments are closed.