نیوزی لینڈ مسجد میں دہشت گردی

نیوزی لینڈ میں مسجد پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں پچاس مسلمان ہلاک ہوگئےہیں۔دہشت گردی کوئی بھی کرے چاہے وہ وردی والے کریں یا بغیر وردی والے، چاہے مسلمان کریں یا نسل پرست۔ انتہائی قابل مذمت ہے۔

نیوزی لینڈ اور پاکستان کی ریاستوں میں فرق یہ ہے کہ نیو زی لینڈ میں ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے دہشت گرد ں کے خلاف کھڑی ہے۔ قاتل گرفتار ہوچکا ہے اور جلد ہی مقدمہ چلے گا اور اسے سزا ملے گی اور حکومت کی کوشش ہے کہ آئندہ ایسا کوئی افسوسناک واقعہ نہ ہو۔ جبکہ پاکستان کی ریاست اپنے شہریوں کی بجائے ان کے قاتلوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں پاکستانیوں کے قاتل رائو انوار اور احسان اللہ احسان پاکستانی ریاستی اداروں کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کی قیادت جو جنوبی ایشیائی خطے میں سینکڑوں افراد کے قتل میں ملوث ہیں وہ بڑے آرام سے پاکستان میں رہتے ہیں۔

بحیثیت پاکستانی ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ ملک کے اندر جتنی مرضی قتل و غارت ہوجائے ہمارا ضمیر نہیں جاگتا جیسے ہی ملک سے باہر کوئی واقعہ ہو جائے تو میڈیا میں ماتم شروع ہو جاتا ہے ۔ کشمیر میں مسلمانوں کے قتل پر ماتم ہوتا ہے کیونکہ جتنا زیادہ ماتم ہوگا ریاست کو اتنا ہی زیادہ سیاسی فائدہ ہوگا۔ جبکہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری جو کہ مسلمان ہے کو بم دھماکوں میں مارا جارہا ہے لیکن اس پر احتجاج نہیں ہوتا کیونکہ ان کے قاتل ریاست کے پالے ہوئے دہشت گرد ہیں اس لیے میڈیا بھی خاموش رہتا ہے۔

ابھی چند دن پہلے بی بی سی میں رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کوئٹہ سے تیس میل دور دشت کے علاقے میں میں ایک نئی بستی بس رہی ہے، اس بستی میں پچھلے دو سالوں سے نامعلوم افراد کی لاشیں دفنائی جارہی ہیں ۔ اور یہ لاشیں اتنی مسخ ہوچکی ہوتی ہیں کہ ان کی پہچان نہیں ہوتی لیکن پاکستانی میڈیا اور اس کے پروردہ دانشوروں اور لکھاریوں نے آسمان سر پر نہیں اٹھایا۔ اس لیے کہ اس قتل و غارت میں ریاستی ادارے ملوث ہیں۔

نیوزی لینڈ میں ہوئی دہشت گردی پر شورو غوغا سے دراصل اپنے ہاں جاری قتل و غارت سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بھارت کی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے ظلم و ستم کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں لیکن پاکستان کی جہادی تنظیموں کی قتل و غارت پر کوئی بات نہیں کرتا۔ شاید کسی کو یاد نہیں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ نے کئی ہزار شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا ہے۔ کیونکہ قاتلوں کے سر پر ریاست کا ہاتھ ہے۔

،جب وردی والوں کے چہیتے مسجدوں پر بم دھماکے کرتے ہیں، مزاروں سے مردے نکال کر ان کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ شیعہ افراد کو شناختی کارڈ دیکھ کر ذبح کرتے ہیں ۔سندھ میں ہندووں کی لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی مسلمان بنا لیا جاتا ہے تو اس وقت پاکستانیوں اور ان کے میڈیا کا اجتماعی ضمیر کیوں نہیں جاگتا۔

سعودی عرب کی افواج جن میں شاید پاکستانی دستے بھی ہوں پچھلے کئی سالوں سے ہمسایہ ملک یمن میں بمباری کرکے معصوم مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں لیکن ہمارا میڈیا خاموش ہے کیونکہ ریاست نہیں چاہتی کہ اس کا چرچا ہو ہاں اگر اسرائیل کوئی بمباری کرے تو پھر اگلے کئی دن تک اسرائیل پر لعن طعن کی جائے گی۔

اسی طرح چین میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے ، ان کی عبادت پر پابندی لگ چکی ہے بلکہ انہیں دہریہ بنانے کے لیے کنسٹریشن کیمپوں میں رکھا گیا ہے ۔ ان میں معلوم نہیں کتنے ہلاک ہو چکے ہیں اور کتنے معذور ہوچکے ہیں لیکن ہمارے نظریاتی دوست چاہے وہ لیفٹ کے ہوں یا رائٹ کے خاموش ہیں

Comments are closed.