اس گائے نے مجھے کیا سکھایا

حبیب شیخ

میں نے کاؤنٹر پر جا کر سینڈوچ کا آرڈر دیا اور پیسے دینے کے بعد ایک اسٹول پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ پھر میں نے دوسرے لوگوں پر ایک نظر ڈالی جو وہاں لنچ کر رہے تھے ۔ تقریباً ہر شخص اپنے فون کے ساتھ مصروف تھا ، بات کر رہا تھا ، ٹائپ کر رہا تھا ، یا کچھ پڑ ھ رہا تھا ۔ ان کھانے والوں کو تو یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ کیا کھا رہے تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ تو اکیلے ہی تھے ۔ تین چار لوگوں پر مشتمل دو ٹولیاں بھی تھیں جو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔

ان کے قریب والی میز پر ایک نوجوان جوڑا بیٹھا ہوا تھا ، چھوٹے قد کی گہرے سانولے رنگ کی پر کشش لڑکی اور میانے قد کا الھڑ لڑکا جس نے سردی کے دنوں میں آدھے بازوؤں کی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔ وہ لڑکی اپنے فون پر غالباً کچھ کھیل رہی تھی اور لڑکا بیزار سا لگ رہا تھا۔ اتنے میں میرا سینڈوچ تیار ہو گیا ۔ میں نے اٹھ کر اسے لیا اور جم کر اسٹول پر بیٹھ گیا کہ اب گرم گرم لنچ سے لطف اندوز ہوں گا۔

ابھی پہلا لقمہ ہی لیا تھا کہ ناجانے کیسے میرا بایاں ہاتھ فون سے کھیلنے لگا اور میں اپنے پسندیدہ صحافی رابرٹ فسک کا ایک مضمون پڑھنے لگ گیا۔ میں اس میں اتنا محو ہوا کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب میرا لنچ ختم ہوا ۔ میں نے مضمون کو پوری توجہ سے پڑھا اور باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا لیکن باہر نکلنے سے پہلے ایک نظر اس نوجوان جو ڑے پر ڈالی ۔ وہ لڑکی کچھ کھاتے ہوئے اب بھی فون کے ساتھ مصروف تھی او ر وہ مضطرب لڑکا ادِھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔

میں نے باہر نکل کر موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کیا اور دفتر کی طرف چل دیا۔ اس نوجوان لڑکے کی شکل میرے سامنے گھوم رہی تھی ۔ پھر مجھے یک بیک احساس ہوا کہ میں بھی تو اس لڑکی کی طرح فون کے ساتھ مصروف تھا اور اس لذیذ سینڈوچ کو ایسے کھا گیا جیسے میں حواس خمسہ سے عاری ایک روبوٹ تھا۔

دفتر کے راستے میں ایک گائے بھینس کافارم پڑتا ہے ۔ ایک گائے باڑ کے بالکل پاس بیٹھی ہوئی جگالی کر رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر جو سکون تھا میں اسے نظر انداز نہ کر سکا اور میں موٹر سائیکل روک کر اسے تجسس سے گھورنے لگا ۔ کتنےمزے کے ساتھ وہ جگالی کر رہی تھی! دنیاسےمکمل بےخبر اپنی خوراک سے پوری طرح دوسری بار لطف اندوزہو رہی تھی ۔ اس نے میری موجودگی کو بھی نظر انداز کر دیا ۔ میں اس پر رشک کرنے لگا کہ یہ تقریباً روز ایک ہی قسم کی خوراک کھاتی ہے لیکن پھر بھی اس پر پوری توجہ مرکوز تھی اور کیسے مزے سے اس کی جگالی کر رہی تھی ۔

پھر مجھے اچانک خیال آیا کہ پچھلے دنوں میں نے Eckhart Tolle کی کتاب Power of Now پڑھی تھی جس کا نچوڑ یہ تھا کہ انسان پورے شعور کے ساتھ لمحٔہِ حال میں رہے اور اس کی قدر کرے کیونکہ لمحہ حاضر ہی اصل زندگی ہے، ماضی اور مستقبل تو خیالات کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کیا کمال کی بات ہے کہ اس گائے نے یہ کتاب پڑھے بغیر اس نظریہ کی مثال پیش کر دی۔

اب میں نے یہ معمول بنا لیا ہے کہ کھانے کے وقت میں فون اور ٹیلی ویژن سے پرے رہتا ہوں اور اپنا دھیان کسی دوسری طرف نہیں لگاتا ۔ اپنی غذا کو چھوتا ہوں ، اس کے رنگ و ترتیب کو غور سے دیکھتا ہوں ، اسے سونگھتا ہوں ، چبانے کی آواز کو سنتا ہوں اور اس کے ذائقے کو سراہتا ہوں گویا کہ پانچوں حواس استعمال کرتا ہوں اور کھاتے ہوئے ہر لمحے کی قدر کرتا ہوں ۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ واقعی میں بھی اس پورے عمل سے سکون پاتا ہوں ۔ جب یہ گائے روز ساڑھے چھے گھنٹے کھانے اور جگالی میں صرف کرسکتی ہے تو میں بھی شام ڈھلے ایک گھنٹہ اپنی سب سے اہم جسم کی بنیادی ضرورت کے لئے خرچ کرسکتا ہوں ۔ لیکن اس نیک عمل کا فوری ردعمل یہ ہوا کہ اب گھر میں میرے کھانا ختم کرنے کا کوئی انتظار نہیں کرتا کیونکہ ہر کسی کو فون یا ٹیلی ویژن بلا رہا ہو تا ہے اور دوستوں کی محفل میں یار لوگ آنے بہانے سے کھانے کی میز سے غائب ہو جاتے ہیں!

Comments are closed.