عورت مارچ کی حقیقت

ڈاکٹر صائمہ ارم

بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے شروع ہونے والی تانیثیت کی تحریک کا زائیدہ، انٹرنیشنل وومن ڈے یعنی عالمی یوم خواتین یا یوں کہ لیجیے عورتوں کا عالمی دن 8 مارچ 2019 چڑھ کے ڈھل چکا ،وطن عزیز میں پچھلے چند برسوں سے عموما اور قریب ایک سال سے خصوصاً یہ دن بڑے اہتمام سے منایا جانے لگا ہے۔

پچھلے برس کراچی سے آغاز کردہ عورت مارچ کا ، اس برس بھی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ انتظام کیا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے کئی پروگرام ہوئے اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے بساط بھر آزادی نسواں پر تبصرہ کیا اور مشورہ دیا۔ پاکستان ( جو عورتوں کے لیے بدترین ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے، پہلا نمبر اومان کا ہے) میں اس طرح کی سرگرمیاں یقینا خوش آئند ہیں۔

اس ہلے گلے کا ایک فائدہ تو بہرحال ہو ہی گیا کہ فیمینزم ایک جانی پہچانی اصطلاح بننے لگی ہے اور لوگ لاشعوری طور پر ہی سہی، عورتوں کے حقوق بارے سوچنے لگے ہیں، یقینا ایسے افراد بھی ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو اس قسم کی سرگرمیوں سے سخت نالاں ہیں اور عورتوں کی ایسی آزادی و خودمختاری کو ہرگز پسند نہیں کرتے، بعضے تو باقاعدہ عملی مخالفت پر اتر آتے ہیں لیکن یہ بھی ایک اچھا مظہر ہے کیونکہ بقول اسد محمد خان،

تردید بھی ایک قسم کا منفی اثبات ہوا کرتی ہے،

ادا جعفری تو بہت پہلے کہ گئیں
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آیے
آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے

اور وہ جو خوش گمان عاشق کہا کرتے ہیں کہ

افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا
اور
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
کے مصداق یہ بھی بہت ہے کہ کسی نہ کسی طور یہ بحث آغاز تو ہوئی۔

پچھلے برس تانیثیت پسندوں کے کچھ نعرے، کچھ پوسٹر بہت زیربحث رہے تھے، یقینا اس مرتبہ بھی کوی نہ کوئی جملہ ایسا ہوگا کہ جو کسی نہ کسی غیرت مند کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہوجائے گا، اور کئ روز تک ٹھہرے تالاب میں گرا ہوا یہ پتھر ہلکی ہلکی کنارے کی اور بڑھتی اور پھر معدوم ہوتی ہوئیں دائروی لہریں بناتا رہے گا۔

پاکستان میں تانیثیت کی اس شیرخوار تحریک سے ڈھیروں خوش آئند توقعات وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تحفظات بھی جڑ گئے ہیں، وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے سو تازہ تازہ فیمینزم زدہ احباب سے دست بستہ جان و آبرو کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ اس تحریک کے پنرجنم کے پہلے روز ہی سے کچھ ابہام ایک دھند کی طرح اس کے گرداگرد چھاگیا ہے، اور روزبروز یہ ابہام بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس تحریک سے جڑے بیشتر تحفظات کچھ ایسے غیر حقیقی بھی نہیں۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر ایک دوسرے کو بھیجے گیے پیغامات، حقوق نسواں کے لیے کی گئیں تقریریں، عورت کے لیے گائے جانے والے ترانے، عورت مارچ کے دوران نسوانی ہاتھوں میں تھامے ہوئے پلے کارڈز اور ان پلے کارڈز پر لکھے گئے سلوگن، سب کے سب یہ بتانے کو کافی ہیں کہ اس تحریک کے پروردگان میں بیشتر اناڑی ہیں، ان کا ارضی حقائق سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ جس تحریک کا علم اٹھائے ہوئے ہیں، اسی کی تاریخ سے کچھ خاص شناسا نہیں ہیں۔

عالمی سطح پر یہ تحریک اپنے تیسرے دور کے اختتام پر ہے، اس کا دوسرا دور1960 کے لگ بھگ شروع ہوا، یعنی اپنے آغاز سے قریب قریب پچاس برس کے بعد۔ یہ میرا جسم میری مرضی ٹایپ کے مطالبات یا اظہاریوں کا جنم فیمینزم کے دوسرے دور بلکہ خدا لگتی کہوں تو پورے طور پر تیسرے دور کے آغاز میں ہوا جب مغربی خاتون کلی طور پر تعلیم اور معاشی میدان میں سرگرم عمل ہو چکی تھی اور اس سے پہلے وہ حق رائے دہندگی، حق ملکیت اراضی، مساوی اوقات ملازمت اور مساوی معاوضے کا حق بزور حاصل کر چکی تھی۔

سنہ، 1960 میں جب امریکہ کی عورت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اسے جنسیت، حق تولید، امور خانہ داری سے آزادی یا برابری، ازدواجی عصمت دری و انسلاکات وغیرہم کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور مردوں کے مساوی یہ حقوق بھی حاصل کرنے چاہیں، اس وقت امریکہ میں ملازم پیشہ خواتین کی شرح اڑتیس فی صد تھی، جن میں سے زیادہ تر تعلیم یافتہ بھی تھیں، یعنی اس وقت کے امریکی سماج میں عورت، قابل لحاظ حد تک معاشی ترقی کی حصہ دار بن چکی تھی،معاشی استحکام کا لازمی اور منطقی نتیجہ خودمختاری ہے۔

آزادی، جو اس وقت کی امریکی خاتون کو میسر تھی، لیکن یہ خود مختاری مرد کو فریق بنانے، کم تر ثابت کرنے یا اس کے وجود کو چیلنج کرنے کے نتیجے میں حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس عورت نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے بڑے طویل عرصے تک تپسیا کی تھی، اب اگر کوئی سیانا یہ سمجھتا ہے کہ پس منظری مرحلے سے گزرے بغیر کھانا خود گرم کر لو کا حکم سنا جائے گا اور مانا جائے گا تو اسے دیوانے کا خواب ہی نہ سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے۔

سال 2017 میں جاری کردہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ملازم پیشہ خواتین کا تناسب 24 فی صد ہے جبکہ امریکہ میں اس وقت 47 فی صد خواتین معاشی طور پر فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔پاکستان کی ان 24 فی صد خواتین میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو ان پڑھ یا نیم خواندہ ہیں اور زیادہ تر گھریلو کام کاج، کارخانہ، مل یا بھٹہ مزدوری اور دوسرے نچلے درجے کے روزگار سے وابستہ ہیں، صرف 2 فی صد خواتین ایسی ہیں جو تعلیم یافتہ اور ایسے پیشوں سے وابستہ ہیں جن سے معقول آمدن ہو سکے۔

امریکہ میں 73 فی صد خواتین اپنے گھروں کی کلی کفالت کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں محض 3 فی صد خواتین معاشی لحاظ سے اپنے خاندانوں کی کفیل ہیں۔یہ تو ہوا انفرادی اور اجتماعی اقتصادی ترقی میں پاکستانی خواتین کا حصہ۔ عورتوں کی سماجی حیثیت اور معاشی خودمختاری کے لحاظ سے جنوبی ایشیا میں پاکستان کا نمبر افغانستان کے علاوہ سب سے نیچے ہے۔

اب اس افسوس ناک اور مایوس کن تعداد سے اگر پوچھا جائے کہ انہوں نے کمانے کا فیصلہ کیوں کیا تو اکثریت کا جواب ہوگا کہ مجبوری۔ کہیں بچوں کی خاطر تو کبھی نکھٹو شوہر کی وجہ سے، بہت سوں کو مناسب رشتے کا انتظار ہوگا تو کئی ایک شادی کی عمر نکل جانے کے بعد بہن بھائیوں کے در پر بوجھ بننے سے گریزاں ہوں گی، کچھ کہیں گی کہ وقت گزاری کے لیے نوکری کی راہ تلاش کی ہے، ایسیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی جو یہ کہے کہ اس نے اپنے آپ کو خودمختار اور مردوں کے برابر بنانے کے لیے ملازمت کی ہے۔

ان خواتین کی اکثریت اسی سوچ کی وجہ سے ایک طرح کے نفسیاتی دباؤ میں رہتی ہے اور وہ اپنے اردگرد موجود گھریلو خواتین کی زندگی پر رشک کرتی رہتی ہیں اس دباؤ، چھپے ہوئے فطری غصے اور احساس کمتری کا نتیجہ شوہر سے چخ چخ، اور ایک ابدی قسم کے احساس محرومی اور اداسی کی صورت میں سامنے آتا ہے جو ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتا ہے، تو ایسی صورت میں کہ جب عورت خودمختار نہیں، عورت کی آزادی کا حصول احمقوں کی جنت میں رہنے سے زیادہ نہیں۔

Comments are closed.