افغانستان کا ثور انقلاب، 41 سال گذرگئے

 


عدنان حسین شالیزئی

سال 1947 کی ویش زلمی تحریک نے پشتون عوام میں ، قوم پرستی ، ترقی پسندی ، تعلیم دوستی اور سیاسی شعور کی داغ بیل ڈالی تو وہیں 1965 میں افغانستان پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی تشکیل نے سیاسی عمل کو تیز تر کر دیا ۔ اگلے دو سالوں میں متعلقہ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ نئے بننے والے دھڑے کو پرچم پارٹی کا نام دیا گیا ۔ دونوں دھڑے افغانستان میں قائم بادشاہت کے حوالے سے پارٹی موقف پر اختلافات کا شکار ہو کر الگ ہو گئے تھے ۔ 1973 میں پرچم پارٹی کی حمایت کی بدولت شاہ افغانستان ظاہر شاہ کے کزن سردار داؤد خان کو اقتدار دلوایا گیا ۔

سردار داؤد نے اقتدار سنبھالتے ہی جمہوری اصلاحات کیں ۔ پاکستان کے اندر پشتون بیلٹ میں پختونستان کے نام سے مسلح تحریک کا ساتھ دیا تو وہیں آزاد بلوچستان کے آزادی پسند بلوچوں کو افغانستان میں پناہ دی ۔ لیکن پاکستان کی طرف سے سفارتی دباؤ اور مسلح مداخلت کے نتیجے میں سردار داؤد نے آزاد بلوچستان اور پختونستان تحریک سے جڑے لوگوں کو افغانستان سے باہر نکال دیا ۔
سال1977 میں پرچم اور خلق ، دونوں دھڑوں نے سیاسی اتحاد کر لیا ۔ سیاسی اتحاد کے نتیجے میں عوام میں سوشلسٹ انقلاب کیلئے راہیں ہموار ہوگئیں ۔ اگلے سال سردار داؤد کی طرف سے سیاسی سرگرمیوں پر قدغن لگا دی گئ ۔ پرچم دھڑے سے تعلق رکھنے والے میر اکبر خیبر کا ریاستی قتل کیا گیا ۔ جس کے خلاف عوام میں سخت غم و غصہ پیدا ہوگیا ۔ اکبر خیبر کی نماز جنازہ میں پندرہ سے بیس ہزار لوگوں نے شرکت کر کے سردار داؤد پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ۔

سال 1978 کے پہلے چند مہینوں میں ترقی پسند سیاسی نظریات رکھنے والوں کو قید کر دیا گیا ۔ اپریل کے مہینے میں شورش اپنے عروج پر پہنچ گئ تھی ۔ انہی دنوں 26 اپریل کی رات کو داؤد خان نے اپنے رفقاء سے سیاسی مخالفین کے اجتماعی قتال کے حوالے سے مشورہ طلب کیا ۔ متعلقہ اجلاس کی اطلاع قید خانوں میں مقید انقلابی راہنماؤں کو ملی ۔ جنہوں نے باہم مشورے سے فوراً انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔

چونکہ افغانستان کی فوج میں خلق پارٹی کے نظریات سے متاثر جنرل رینک کے آفیسرز بھی تھے ۔ جنہوں نے 26 اپریل 1978 دن دس بجے کابل کے حکومتی دفاتر پر قبضہ شروع کردیا ۔ انقلاب برپا کرنے کے عمل میں کل 20 افراد اپنی جان سے گئے ۔ جو کہ کسی بھی انقلاب کے نتیجے میں کم سے کم ہلاکتیں ہیں ۔ اسی طرح جیل میں مقید راہنماؤں اور ساتھیوں کو بھی چھڑوا دیا گیا ۔ اس طرح رات کے 8 بجے افغانستان ثور انقلاب کا اعلان کر دیا گیا ۔ اتفاق رائے سے 27 رکنی انقلابی کونسل تشکیل دیا گیا اور نور محمد ترہ کئ کو ملک کا صدر بنا دیا گیا ۔

انقلابی حکومت کی اصلاحات :۔
۔• ولور / جہیز کا خاتمہ کیا گیا ۔
۔• سود کا خاتمہ کیا گیا ۔
۔• زرعی اصلاحات کا نفاذ کیا گیا ۔ افغانستان کی ٪50 زرخیر زمین ٪5 جاگیر داروں سے چھین کر 3 لاکھ غریب کسانوں میں تقسیم کی گئ ۔ پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
۔• مردم شماریوں کا انعقاد کیا گیا ۔
۔• تعلیم لازمی قرار دے کر طلباء کو مفت سٹیشنری ، وردی اور کھانا فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ تعلیم بالغان کے ادارے قائم کیے گئے ۔ افغانستان کے اندر مختلف اقوام رہتی ہیں ۔ ان کی سہولت کی خاطر ان کو اپنی قومی زبانوں میں تعلیم دینے کا آغاز کیا گیا ۔
۔• عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے پر زور دیا گیا ۔ عورت کے ساتھ زبردستی کی شادی ، بدلے میں عورت دینے کے رجحان اور بیوہ کو دوبارہ شادی سے روکنے کے عوامل کا خاتمہ کیا گیا ۔

یہ تھیں وہ اصلاحات ، جن کی پاداش میں پہلے نور محمد ترہ کئ کو اور بعد میں حفیظ الا امین کو عالمی سامراجی طاقتوں نے قتل کر دیا ۔ غریب طبقے اور مظلوم اقوام کے خلاف عالمی سامراج کی کوششیں آج بھی جاری ہیں ۔ آج بھی اقوام کی نسلی ، زبان ، روایات ، ہیروز کی شناخت کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔ آج بھی مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو غربت کے دلدل میں مزید دھکیلا جا رہا ہے ۔


Comments are closed.