ہندو جم خانہ، جہاں ہندو عدالتی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا

کوی شنکر

قیام پاکستان سے پہلے کراچی میں پانچ سو سے زائد مندر، گرودوارے، دھرم شالائیں اور دیگر عمارتیں تھیں۔۔ آج ان عمارتوں کی اکثریت کا کوئی وجود باقی نہیں بچا۔۔اس وقت ان میں سے چند ایک انگلیوں پر گننے جتنے مندر ہیں بچے۔۔جبکہ مندر اور دھرم شالائوں سمیت بیشتر پر قبضے ہو گئے اور انہیں ملی بھگت کرکے فروخت کردیا گیا۔۔

اس تاریخی ورثے کو تین وال کرنے والوں میں مختلف حکومتی ادوار کی بااثر شخصیات، منتخب ہندو ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران شامل رہے ہیں۔۔ زندہ رہ جانے والی عمارتوں سر فہرست ہندو جم خانہ ہے۔۔اس عمارت کو اگر شہر قائد کی شان کہیں تو غلط نہ ہوگا۔۔ سندھ اسمبلی اور کراچی آرٹس کونسل کے قریب وسیع و عریض اراضی واقع ہندوجم خانہ کی عمارت کئی نشیب و فراز سے گذری ہے۔

کراچی میں ہندو جم خانہ کے قیام کا مقصد شہر میں بسنے والی ہندو برادری کو سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لئے ایک جگہ مہیا کرنا تھا۔۔ اس لئے 1921 میں کراچی میونسپل کمیٹی نے ہندو جم خانہ ایسوسی ایشن کو سینتالیس ( 47000) اسکوائر گز کا پلاٹ نناوے سال کے لئے الاٹ کیا۔

پلاٹ کے ایک حصے پر 1926، 1925 میں سیٹھ رام گوپال گوردھن داس کی مالی تعاون سے یہ خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی۔ہندوجم خانہ کا نقشہ آغا احمد حسن نامی آرکیٹیکٹ نے بنایا اور عمارت کی تعمیر جئے پور کے پتھر سے کی گئی۔۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد ہندو جم خانہ اوقاف پراپرٹی بن گیا۔۔عمارت کے ایک خالی حصے آرٹلری میدان تھانہ، پولیس کے دفاتر اور رہائشی کوارٹرز قائم کئے گئے۔۔جبکہ 3400 اسکوائر گز زمین علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو مل گئی۔۔جبکہ تعمیر شدہ عمارت اور اس سے ملحقہ زمین جو ایک اندازے کے مطابق ایک ایکڑ ہے، محفوظ رہی۔۔

سنہ 1961 میں ہندوجیم خانہ کی عمارت میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا دفتر قائم کیا گیا۔۔1978 میں کمیشن کے دفاتر اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد عمارت خالی پڑی رہی۔۔بغیر استعمال کے عمارت زبون حال ہوتی رہی۔۔1990 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایات پر عمارت ووکیشنل سینٹر کے قیام کے لئے سندھ حکومت کو منتقل کی گئی۔ 1993 میں عمارت کو محکمہ ثقافت کے حوالے کیا گیا۔۔اور تین کروڑ روپے کی خطیر رقم سے ہندو جم خانہ کو اصل حالت میں بحال کیا گیا۔۔

مگر وقت گذرتا گیا عمارت میں ووکیشنل سینٹر قائم نہ ہوسکا۔۔البتہ عمارت میں چھوٹے موٹے پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا رہا۔۔ ہندو جم خانہ کوسندھ کلچرل ہریٹیج ایکٹ 1994 کے تحت محفوظ ورثا قرار دیا گیا۔۔ 2004 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایوان صدر کی خواہش پر ہندوجیم خانہ میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس یا ناپا قائم کرنے فیصلہ ہوا۔۔ 23 ستمبر 2005 میں محکمہ ثقافت سندھ اور ناپا انتظامیہ درمیان معاہدہ طے پاگیا جس کے تحت ہندوجم خانہ مبلغ پچاس ہزار روپے کرائے پر تیس برس تک ناپا کے حوالے کردیا گیا۔جبکہ اس وقت کے وزیر خزانہ سندھ سید سردار احمد نے ہندوجم خانہ ناپا کے حوالے کرنے کے مخالف تھے۔۔

ناپا اپنے معاہدے میں پابند تھا کہ وہ عمارت میں توڑ پھوڑ کے ساتھ توسیع نہیں کرے گا۔۔ لیکن محکمہ ثقافت کی منظوری کے بغیر تعمیرات کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت آنے کے بعد محکمہ ثقافت کی وزیر سسئی پلیجو نے ہندو جم خانہ کی واپسی کے لئے کوششیں کی۔وہ عمارت کا ایک حصہ ہندوبرادری کی سماجی اور ثقافتی تقاریب کے لئے مختص کرنے کے ساتھ دوسرے حصے پر سندھ کا ثقافتی مرکز قائم کرنا چاہتی تھیں۔

عمارت میں غیرقانونی طور پر اوپن ایئر تھیٹر تعمیر کرنے پر محکمہ ثقافت نے نوٹس جاری کیا ۔۔جس پر ناپا نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور حکم امتناعی حاصل کیا۔ مقدمے کی پیروی کے دوران ہندو کاؤنسل اور رتنیشور مہادیو شیوامنڈلی بھی فریق بنیں۔۔ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور عدالتی احکامات پر ناپا انتظامیہ نے ہندو برادری کو ہندوجم خانہ میں ہولی اور دیوالی کا تہوار منانے کی اجازت دی۔۔

ہندو جم خانہ کو جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔۔۔قیام پاکستان سے پہلے اور اب بھی کراچی میں ہندو برادری کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔۔جس کے پاس اپنی سماجی اور ثقافتی سرگرمیان ایک چھت تلے انجام دینے کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔۔۔ اور ہندو جم خانہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے لیکن ہندو برادری کو وہاں اپنی تقریب منعقد کرنے کے لئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

Comments are closed.