ریاست کے خلاف مسلّح جدوجہد ایک احمقانہ عمل ہے

آصف جاوید

ریاست کے جسم پر وردی اور ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے، ریاست کتّا بنا کر مارتی ہے، ریاست اپنے خلاف اٹھنے والی ہر مسلّح جدوجہد کو دہشت گردی کے نام پر کچل دیتی ہے۔ اگر کسی کو ریاست سے حقوق مانگنے ہیں، مراعات لینی ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ جمہوری اور سیاسی عمل کے ذریعے اپنے آئینی و قانونی حقوق کے لئے جدوجہد کرے، پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرے، ریاست سے مسلّح جدوجہد کرنا یا خود کشی کرنا دونوں یکساں عمل ہیں۔  جو جدوجہد زندہ رہ کر  کی جاسکتی ہے،   وہ جدوجہد مر کر نہیں کی جاسکتی،  ایک متحرک اور باشعور ذہن کو گنوانا،  ظالم کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔

سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ذریعے تو ریاست کو جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے، مگر  مسلّح جدوجہد کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا، آئینی و قانونی حقوق کے لئے صرف سیاسی جدوجہد کا راستہ ہی باعزّت راستہ ہے۔ مسلّح افواج سے سے لڑنے کی غلطی کوئی احمق ہی کرسکتا ہے، فوج سے صرف فوج ہی لڑ سکتی ہے، عوام نہیں لڑ سکتے۔ سیاسی جماعتوں کو کبھی بھی ریاست کے مقابلے میں بندوق نہیں اٹھا نا چاہئے، جو لیڈر اپنے فالوورز کو ہتھیار اٹھانے یا مسلٗح جدوجہد کی ترغیب دیتے ہیں ، وہ  لیڈر نہیں احمق ہیں۔ ریاست سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے معصوم انسانوں کو مار کر اپنے مطالبات پیش کرنا اور اس پر یہ سمجھنا کہ دنیا آپ کی تائید کرے گی ایک احمقانہ عمل ہے۔

پاکستان میں ہر محروم طبقے کو اپنے آئینی و قانونی حقوق حاصل کرنے کے لئے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہئے، عدالتوں سے فریاد کرنا چاہئے، سوشل فورمز اور اسمبلی میں اپنی آواز بلند کرنا چاہئے،  بین الاقوامی فورمز پر اپنی آواز اٹھانا چاہئے، عوامی رابطوں کے ذریعے عوام کو اپنے حقوق کے لئے موبلآئز کرنا چاہئے، مگر ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھانے چاہئیں۔

کمزور سے کمزور ریاست بھی اپنے خلاف اٹھنے والی مسلّح جدوجہد کو کچلنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ ریاست کے پاس فوج ہوتی ہے، فوج کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں اور دشمن کو مارنے کا حق ہوتا ہے، ریاست کی فوج سامنے سے حملہ کرتی ہے جب کہ مسلّح جدوجہد کرنے والے ریاست پر چھپ کر حملہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ریاست پر حملہ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہوتا، جب کہ ریاست کے پاس اپنے حملہ آوروں سے نمٹنے اور انہیں کچلنے کا قانونی اختیار ہوتا ہے۔

ریاست کی فوج سے صرف دشمن ملک کی فوج ہی آمنے سامنے لڑ سکتی ہے، سیاسی جماعتوں کے مسلّح ونگ نہیں لڑ سکتے۔ لہذا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ہر صورت جمہوری اور سیاسی عمل کے زریعے ہی اپنے حقوق کی جدودجہد جاری رکھنا چاہئے۔

ریاستی دہشت گردی کا جواب مسلّح مزاحمت قطعی نہیں ہے۔ ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ صرف سِوِل سوسائٹی ہی کرسکتی ہیں۔ کیونکہ سِول سوسائٹی غیر جانبدار ہوتی ہے، سِوِل سوسائٹی کو کسی پریشر گروپ ، کسی طاقتور مافیا، کسی سیاسی جماعت، کسی مذہبی تنظیم کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کی قوّتِ متحرکہ انسانی ضمیر کی آواز اور فکری بیداری ہوتی ہے۔ پاکستان میں چونکہ ظلم و جبر کا راج ہے، سوچ و فکر آزاد نہیں ہوتی ، جان کو خطرات ہوتے ہیں، لہذا پاکستان میں سِول سوسائٹی خوف کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور آواز بلند نہیں کرتی ہے۔

پاکستان میں سِول سوسائٹی کو ریاستی اداروں کے علاوہ ، مذہبی تنظیموں، انتہا پسندوں ، جہادی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب اپنی اور اہلِ خانہ کی سلامتی کا خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ استحصالی طبقات بھی یہی ہوتے ہیں، اور سِول سوسائٹی ان ہی کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ لہذا سِوِل سوسائٹی دوہرے جبر کا شکار رہتی ہے۔

مگر یہ بات طے ہے کہ جب ریاست کے کسی بھی غیر ائینی اور غیر قانونی عمل کی مخالفت سِول سوسائٹی کردے تو ریاست کے پاس پیچھے ہٹنے  اور جھکنے  کے سِوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کی ذمّہ داری کسی حد تک سِوِل سوسائٹی کی خاموشی پر بھی عائد ہوتی ہے۔

محروم طبقات کے مسائل پر سیاسی جماعتیں بھی کافی حد تک ریاستی دہشت گردی کی ذمٗہ دار ہوتی ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتیں جب محروم طبقات کے مسائل پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتی ہیں، محروم طبقات کے مسائل پر سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے مفاد پرستی کی سیاست کرتی ہیں تو محروم طبقات مسلّح جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یوں ریاست کھل کر دہشت گردی پر اتر آتی ہے۔

حقوق سے محروم طبقات کے لئے صرف ایک ہی با عزّت راستہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا راستہ نہ چھوڑیں، اور اپنے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے، اور ہنر سیکھنے پر مجبور کریں تاکہ وہ خوش حالی تک پہونچنے کے لئے معاشی جدوجہد کے قابل ہو سکیں۔ جو جدوجہد ہتھیار اٹھا کر اور اپنی جانیں گنوا کر کی جارہی ہے اگر اس کی بجائے صرف معاشی ترقّی حاصل کرنے کی جدوجہد کرلی جائے تو حالات یکسر بدل سکتے ہیں۔ سماج میں جو بھی تبدیلی آتی ہے وہ معاشی ترقّی سے آتی ہے، مسلّح جدوجہد سماجی  ترقّی کا راستہ روکتی ہے۔ ریاست کے خلاف مسلّح جدوجہد ایک احمقانہ عمل ہے

One Comment