مارکسی فلسفہ کی دو جہتیں

جہانزیب کاکڑ


مارکسی فلسفہ کی دو جہتیں
two aspects of marxism

اُنیسویں صدی سے لیکر آج تک شاید ہی کوئی نظریہ ایسا ہو جس کے حق اور مخالفت میں اتنا کُچھ کہا  اور لکھا گیا ہو جتنا مارکسزم کے متعلق کہا اور  لِکھا گیا ہے۔ اِن ہر دو مخالف رُجحانات کی ٹکراؤ کے نتیجے میں یہ فلسفہ مزید نکھر کر سامنے آیا،  اِس کی کمزوریاں اور مستحکم پہلو مزید واضح ہوتے چلےگئے۔  یعنی تضادات کے زریعے حقائق کا انکشاف _____ یہی وہ جدلیاتی طریقہ ہے جس کا کہ مارکسزم بنُیادی طور پر وکالت کرتا ہے۔
سال۱۹۷۸ میں بی بی سی کے نامہ نگار برائن میگی نے جب مشہور مارکسی فلسفی ہربرٹ مارکیوز سے ایک انٹرویو کے دوران سوال کیا!۔

” you have catalogued a formidable list of defects in marxist theory۔۔۔ what many people will be asking themselves:All this being so, why did you and the other members of the frankfurt school remain,or even want to remain, marxists? what is the point of hanging on to theory so riddled with errors,why not try to liberate your thought categories from it altogather,or look at reality afresh?

Marcuse replied:
easy  answer: because i do not believe that theory, as such, has been falsified
۔what has happened is that some of the concepts of marxian theory, as i said, before, have had to be re-examined; but this is not something from outside brought into marxist theory, it is something which marxist theory itself as an historical  and dialectical theory demands۔(1)

سوال؟۔۔۔۔۔۔ ترجمہ:۔

آپ نے مارکسی نظریے میں نقائص کی ایک قابلِ غور فہرست مُرتب کی ہے۔ بہت سے لوگ خود سے یہ سوال کر رہے ہونگے کہ ایسا ہی ہے تو کیوں آپ اور فرینکفرٹ سکول کے دوسرے ارکان مارکسی رہنا یا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟ ایک ایسا نظریہ جو اِس قدر غلطیوں پر پھیلا ہوا ھے، سے وابستہ رہنے کا کیا جواز بنتا ھے؟ نئے حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اپنے فکری مقولوں کو اِس سے مکمل طور پر آذاد کروانے کی کیوں کوشش نہیں کرتے؟
مارکیوز نے جواباََ کہا
آسان جواب: لیکن میرا نہیں خیال کہ نظریہ ہی بُنیادی طور پر غلط ثابت ہوا ہے۔ اَمر واقعہ یہ ہے کہ مارکسی نظریے کے کُچھ تصؤرات، جیساکہ میں نے پہلے کہا، کا ازسرِنو جائزہ لینا پڑا ہے لیکن یہ مارکسی نظریے میں باہر سے لائی گئی کوئی خصوصیت نہیں۔یہی وہ چیز ہے جس کا مارکسی نظریہ بطورِ تاریخی اور جدلیاتی نظریہ، تقاضا کرتا ہے
اگرچہ مارکسزم کے حق اور مخالفت میں بہت کُچھ لکھا اور کہا گیا ہے مگر اِس کے دو بُنیادی پہلوؤں میں اِمتیاز کو خاص طور پر نظرانداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سی فکری اُلجھنوں اورمغالطوں نےجنم لیا

یہ دو پہلو حسبِ ذیل ہیں
۔(۱)منطقی یا اُستوار پہلو
۔(۲) متحرک یا تشریحاتی پہلو
۔(1:)
منطقی پہلو کِسی بھی نظام یا فلسفے کا نسبتاََ مُستحکم پہلو ہوتا ہے جس پر کہ مذکورہ فلسفے اور نظام کا مکمل انحصار اور دارومدار ہوتا ہے۔ اگر منطقی پہلو کے بُنیادی قضیات میں قطع و بُرید کی جائے تو سارا فلسفہ اور نظامِ فکر ہی ڈھ جائے۔
مارکسی فلسفہ اور نظام بھی چند ایسے ہی مُسلّمہ اور بُنیادی قضیوں پر مبنی ھے جس میں اگر ترمیم کی جائےتوسارا نظامِ فلسفہ ہی مشکوک ٹھہر جائے۔

وہ بُنیادی اور مُستحکم پہلو اِس کا جدلیاتی مادیت کا نظریہ اورطریقہء کار ھے۔ یہ طریقہءکار نہ صرف یہ کہ دیگر فکری نظاموں اور مُہا بیانیوں کے تضادات کو عیاں کرتا ہے بلکہ اپنے سلسلہء عمل کی غلطیوں اور نقائص کی بھی نشاندہی کرتا ہے جس کے زریعے اِس کے اپنے نظامِ فکر کی تطہیر بھی ہوجاتی  ہے اور اِس کے بُنیادی مُسلمات ذیادہ ٹھوس بُنیادوں پر مُرتب ہوتے جاتے ہیں کیونکہ جدلیاتی مادیت کی نظر میں کوئی شئے، نظریہ اور حقیقت مقدس  نہیں ہوا کرتا  بلکہ ہر نظریہ اور فلسفہ تضادات سے عبارت ہوتا ہے۔ ٹھوس تاریخی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اس میں سے پوشیدہ تضادات نمایاں ہوجاتے ہیں اِن ہر دو ماقبل اور مابعد متضاد اِکائیوں کی وحدت اور باہمی کشمکش سے ہی کسی مظہرکےاندرتبدیلی یااِسکی   قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔ 

  جدلیاتی مادیت کا یہی وہ ٹھوس اور بُنیادی مُسلّمہ ھے کہ جس کی تردید کرتے ہوئے بھی تردید نہ کی جاسکی کیونکہ تردید بذاتِ خود پُرانی حقیقت سے لڑائی مول لینے کے مُترادف ھے جو بجائے خود ایک جدلیاتی عمل ھے اِس لئے جدلیاتی طریقہ کار جو ھمہ جہت طریق ہائے کار، معنوی تکثیریت  اور پوشیدہ اِمکانات کیلئے دروازہ کھول دیتی ھے، کو اتنی آسانی سے مُسترد نہیں کیا جاسکتا کہ استرداد پھر سے جدلیات کے گورکھ دھندے میں پھنس جانےکےمترادف عمل ہوگا۔

جدلیاتی مادیت کے یہی مستحکم اُصول مندرجہ ذیل ہیں
۔۱۔تضادات کی وحدت اور باہمی کشمکش کا قانون
۔۲۔ مقدار اور معیار کا قانون
۔۳۔ نفی کی نفی کا قانون

۔1:تضادات کی وحدت اور کشمکش کا قانون:۔
تضادات کی کشمکش اور باہمی آویزش کا قانون یہ کہتا ھے کہ دُنیا کی ھر شئے ، مظہر اور حقیقت دو بُنیادی اکائیوں کی وحدت وپیکار پر مُشتمل ہوتا ھے جو بیک وقت مظہر کا حقیقت ہونے اور ناحقیقت  میں بدل جانے کے اِمکان پر مُشتمل ہوتا ھے ، حقیقت اور اِمکان کی یہی وحدت اور جدل آنے والی حقیقتوں اور اِمکانات کیلئے مزید راستے کھول دیتی ھے جو مظاہرِ عالم میں ترقی، تنوع اور ارتقا کا بُنیادی سبب اور قانون ہے۔ جس کی وجہ سے دعویٰ ضدِ دعویٰ اور ترکیب کا لامتناہی سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔

مقدار اور معیار :۔
مقدار اور معیار جدلیاتی مادیت کا ایک ایسا قانون ھے جس کے مطابق تضادات کے نتیجے میں دو اَقسام کی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جسے مقداری تبدیلی اور معیاری تبدیلی کہتے ہیں اور یہ تبدیلیاں بہم مربوط سلسلوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ قانون کہتا ہے کہ تضادات کی بدولت کسی مظہر کے اندر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں جن کے مسلسل اِجتماع سے، ایک مقام آنے پر، بڑی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی مقداری تبدیلیاں بظاہر معمولی نوعیت کی لگتی ہیں مگر جمع ہوتے ہوتے ایک مقام پر بڑی تبدیلی میں بدل جاتی ہیں جسکی ہمارے ہاں ایک بہترین مثالقطرہ قطرہ سے دریا بنتا ہے۔

اِسکی دوسری مثال ہے کہ جب کسی ریاست کی طرف سے اِسکی رعایا پر مظالم توڑے جاتے ہیں، رعایا ظلم برداشت کرتے رہتے ہیں جب ریاستی جبرِ مسلسل، حدوں کو پار کر جائے تب کہیں ایسا لمحہ آتا ھے کہ یہ غصہ انسانوں کی شکل میں سڑکوں،  گلیوں اور چوراہوں پر نکل آتا ھے جس کو ہم سماجی ہلچل،معیاری تبدیلی یا انقلاب کہتے ہیں۔

تیسرا اہم قانون جِسے نفی کی نفی کا قانون کہتے ہیں جو تضادات کی کشمکش سے لے کرمقدار کے معیار میں بدل جانے تک کے تمام مراحِل میں کارفرما رہتا ھے۔ یہ قانون وضاحت کرتا ھے کہ تبدیلی اور ارتقا دراصل نفی کی مسلسل تکرار سے ہی وجود میں آتی ھے؛ نفی کی نفی کا مذکورہ قانون نہ ہو تو ارتقا اور نشوؤنما کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ارتقاء  پُرانے اور ازکارِ رفتہ کی نفی سے ہی عمل میں آتی ھے۔ اور پھر مذکورہ نفی، جس کے زریعے ارتقا اور ترقی کا عمل آگے بڑھتا ھے، کی بھی نفی ہوجاتی ھے جو ایک نئے سلسلہءعمل کا نقطہءآغاز بن جاتاھے۔

پھول کی مثال دیتے ہوئے ہیگل جدلیات کے اِن تینوں قوانین کی  وضاحت یوں کرتا ہے

پھول میں نشوؤنما کی قوت اثباتی ھے لیکن یہی نشوؤنما اِسے بیج میں تبدیل کر دیتی ہے جو پھول کی نفی کردیتا ہے پھر اِس بیج سے اکھوا پھوٹتا ہے جس سے نفی کی نفی ہو جاتی ہے لیکن جس میں پھول اور بیج دونوں کا جوہر محفوظ رہتا ہےاسی طرح نفی کی نفی یا اتحاد کی صورت میں مثبت اور منفی دونوں صلاحیتیں جمع ہوجاتی ہیں۔(۲)۔
p No :135
اگر ہم اسکی ایک سماجی مثال لیں تو بورژوا طبقہ جو جاگیرداری کی کھوکھ میں پلا بڑھا، نے بالغ ہونے پر جاگیرداری کی نفی کردی  اور اپنی ریاست قائم کر دی مگر اِس نظام کے بطن میں بھی بقولِ مارکس اِسکا گورکن پوشیدہ ھے جو بالآخر بورژوا سماج کی نفی کا باعث ہوگا یعنی جس سے ماقبل نفی، کی نفی ہوجائے گی۔ یہی وہ بنیادی اُصول ہیں کہ جن کو رد کرنے سے بھی اِن کی تصدیق ہوجاتی ھے۔

۔2:متحرک یا تشریحاتی پہلو:۔
(dynamical aspect)

مارکسی نظریے کے جس پہلو کو سب سے ذیادہ ہدفِ تنقید  بنایا جاتا ہے وہ اسکا متحرک یا تشریحاتی پہلو ھے۔ یہ ریاست، معاشرت اور سیاست سے متعلق مارکسی اَساتذہ کی اُن آراء اور تشریحات پر مشتمل جہت ھےجس کے نتائج اُنہوں نے سماج کے نسبتاََ محتاط معروضی تجزیے کے بعد اَخذ کیئے تھے جس میں، ظاہر ھے، سماجی سائنس کی ذیادہ پیچیدگی کی وجہ سے غلطی کا احتمال رہ جاتا تھا لہذہ اُنہوں نے کبھی اِن تشریحات اور آراءکے حتمی  یا حرفِ آخر ہونے پر زور نہیں دیا۔
مخالفین کی جانب سے یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ھے کہ گویا یہی وہ بنیادی اہمیت کا حامِل پہلو ھے جس کی اکثر پیشن گوئیاں تاریخی طور پر  غلط ثابت ہوئیں (اگرچہ کہ بہت ساری درست بھی ثابت ہوئیں: راقم) لہذاہ سارا نظامِ فکر ہی باطل ٹہر گیا۔
متذکرہ بالا تبادلہء خیال کے دوران مارکیوز نے مارکس کی کافی پیشن گوئیاں درست بھی ثابت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا


”it would be relatively easy for me to enumerate, or give you a catalogue of, those decisive concepts of marx which have been corroborated by the development of capitalism
۔
the concentration of economic power, the fusion of economic and political power, the increasing intervention of the state into the economy, the decline in the rate of profit, the need for engaging in a new- imperialist policy in order to create markets and the opportunity of enlarged accumulation of capital and so on, this is a formidable catalogue_ and it speaks a lot for marxian theory
۔

ترجمہ:۔
میرے لیئے، آپ کو مارکس کے اُن فیصلہ کُن تصؤرات کی فہرست، سرمایہ داری کی نشوؤنما نے جسکی تصدیق کردی ھے، گِن کر فراہم کرنا نسبتاََ آسان ھے۔ معاشی طاقت کا ارتکاز، معاشی اور سیاسی طاقت کاادغام ، معیشت میں ریاست کی بڑھتی ہوئی مداخلت، شرحِ منافع کی گراوٹ، نئی سامراجی پالیسی میں جھکڑنے کیلئے منڈیوں اور اجتماعِ سرمایہ  کی تخلیق کے مواقع کی ضرورت پر زور، وغیرہ وغیرہ _ یہی ایک قابلِ غؤر فہرست ہے جو مارکسی نظریے کے متعلق بہت کُچھ بتا دیتا ہے(۳)”۔

حالانکہ___ یہی وہ پہلو ہے  جس پر مارکسی اَساتذہ مارکس، اینگلز، اور لینن نے مُطلق زور نہیں دیا اور اپنے تجزیے کو زیادہ سے زیادہ معروضی اورمتحرک رکھا ۔جسکی وجہ سے انہیں کئی بار اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا پڑی ۔ کیونکہ سماجی سائنس کی حرکیات اور نتائج کی پیشن گوئیاں فطری سائنس کے نتائج کی مانند اٹل نہیں ہوا کرتیں، اس لیئے کہ اِنسانی رویہ بنیادی طور پر ناقابلِ پیشن گوئی ہوتا ہے( اگرچہ کہ ماہرینِ نے کُچھ ایسے اُصول ضرور مرتب کیئے ہیں جس کی پیشن گوئی کم وبیش درست بھی ثابت ہو جاتی ہے جیسا کہ یہ اُصول کہ غُربت جرائم کو جنم دیتا  ہے اور یا انقلابات کو) اس لیئے سماجی تناظر کو ترتیب دیتے ہوئے  تجزیے کو متحرک رکھنا پڑتا ہے تاکہ بدلتے ہوئے حالات کیساتھ تجزیے کو ذیادہ ٹھوس بنیاد فراہم ہوتا رہے۔

مخالفین کی جانب سے دانستہ طور پر اِس کے تشریحاتی پہلو کو ذیادہ سے ذیادہ اُچھالا جاتا ہے تاآنکہ جدلیاتی مادیت کے ناقابلِ تردید اُصولوں کی جانب عوام الناس کی توجہ مبذول نہ ہو مبادا اِن کے ھاتھ وہ ہتھیار لگ جائے جسکو بروئے کار لاتے ہوئے وہ نہ صرف ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے قابل ہوں بلکہ حال کے لائحہء عمل کو مرتب کرتے ہوئے مستقبل کے تناظر کو بھی تخلیق کر سکیں۔

References:۔
(1): kellner, doglas, Herbert marcuse and the crisis of marxism, publisher: higher and further education division hampshire and london(1),(3)pNo:9
۔2:جلالپوری، علی عباس، روایاتِ فلسفہ، ناشر🙁۲) تخلیقات لاہور
bibliography:
(3) Afanasyev, marxist philosophy_a popular outline,publisher: progressive publisher moscow
۔
(4): aslam,CR,
جدلیاتی وتاریخی مادیت کے اُصول ،پبلشر، سنگت اکیڈمی آف سائنسز۔

Comments are closed.