عمرانی وعدے


 رزاق شاہد

رکیں ذرا!!۔
جب شور تھما، کچھ دُھول چَھٹی۔۔۔۔
تو میرے ساتھی نے روکا
اچھا یہ بتائیں
ہمارے وزیراعظم کو ضمیر نہیں ستاتا ہو گا؟ عوام سے کئے گئے سُکھ کے وعدے یاد نہیں آتے ہوں گے؟
اپنی تقریروں کی گرج اور عوام کے نعروں کی دھمک سنائی نہیں دیتی ہو گی؟

یاد ہے ہمارے حاکم نے کیا کہا تھا  کہ غیروں سے قرضے نہیں لیں گے کیونکہ قرضے لینے سے قومیں غلام بن جاتی ہیں۔

لوٹی دولت واپس لیں گے۔
عوام کو سُکھ پہنچائیں گے۔
مہنگائی نہیں ہو گی۔
چور اور ڈکیت بھاگ جائیں گے۔
عوام پر وہ ظلم روا نہیں رکھیں گے جو دوسرے ڈھاتے رہے ہیں۔

تو پھر کیا ہوا؟

یہی کہ ستم تو پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
مہنگائی نے آسمان چھو لیا ہے۔
قرض ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔
روزی ہے کہ چھنتی جا رہی ہے۔

تو پھر؟

پھر یہی کہ ضمیر نہیں ستاتا ہو گا اسے جب رات اکیلا سوتا ہو گا؟
کیا کہہ آیا تھا کیا کر رہا ہوں۔

میرے دوست!!۔
آپ ضمیر کسے کہتے ہیں اسے دیکھا ہے کبھی؟ ضمیر تو وہ وعدہ ہے جو خدا نے وقتِ تخلیق روحوں سے لیا تھا۔
میرے یار!!۔
سامی مذاہب کے علاوہ سب کے رب سامنے دھرے ہیں۔ ان سب کے خدا دیدنی ہیں۔
ضمیر بھی خدا کی طرح پاکیزہ احساسات کا نام ہے جو تخت پر بیٹھتے ہی ہوا ہو جاتا ہے۔ جس طرح نفع کے پجاری سے انسانیت منہ موڑ لیتی ہے اسی طرح تخت پر بھی ضمیر کا کوئی کام نہیں۔
اگر تخت پر ضمیر کا وجود ہوتا تو ابن سعد حسین کے سر کو نیزے پر پرو کے یزیدی دربار میں پیش نہ کرتا۔
ضمیر شاہوں کے محلات میں جگہ پاتا تو خطاطِ قرآن عالمگیر، نماز کے بعد بھائیوں کے خون آلود سر نا مانگتا۔
ضمیر اگر وردی پوش کے اندر ہوتا تو نوروز خان کی اولادیں دھوکے سے نا ماری جاتیں۔
ضمیر اگر تاجِ شاہی کے نیچے موجود ہوتا تو سندھو ققنس ظلمت کے ہاتھوں مصلوب نا ہوتا۔ میرے دوست سُن!!۔
اپنے حاکم کو اسلام آباد کے تخت سے اتار دے سارے ضمیر جاگ اٹھیں گے۔
اور
یاد نہیں آپ نے اپنے دو مکان بچانے کی خاطر مقامی عمران کو ووٹ دیا تھا۔
ہم نے دو ٹکے کی نوکری بچانے خاطر مرحوم سردار کے بیٹے کے گیت گائے تھے۔
میرے عثمان کریم نے سرائیکی صوبے کے نام پر فرعونِ عصر کے لئے دست سوال دراز کئے تھے۔
اپنی قومی شناخت منوانے کی خاطر ہمارا انجینئر شاہ نواز خان بھی عمرانی جھانسے میں آکر در در سوالی بنا۔
ہم جو دو حرف کے پڑھے کو فخر سمجھتے ہیں۔ ہم جو زندہ ضمیر کے دعوے دار ہیں۔۔
ہم سب بِک گئے ہیں جُھک گئے ہیں۔

ہمارا وزیراعظم کس کھیت کی مولی ہے، وہ، اس کرہ ارض کو آپ کے بقول تگنی کا ناچ نچانےوالوں کا عثمان بزدار کیوں نا بنے۔

میرے ہم صفیر!!۔
ہم سب مردہ ہیں۔
ہم سب بے ضمیر ہیں۔
ہم سب اندھے ہیں۔
ہم سب بہرے ہیں۔
ہاں اس امید پر سانس لے رہے ہیں کہ ایک وقت آئے گا اسی حبس سے کوئی چے ابھرے گا۔
اسی قہر سے کوئی شاہ عنایت سر اٹھائے گا۔
کوئی کاسترو نکلے گا۔
اسی امید پر، اسی بھروسے پر، اسی برتے پر شدادوں کی دہکائی آگ پر رقصاں ہیں

Comments are closed.