قصہ نواز شریف کے ایک بلین ڈالر کا اور جرنیلوں کی للچائی نظریں


 ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی پاکستان کے خلاف اپنا مقدمہ جیت چکی ہے اور پاکستان کو ہرجانے کے طور پر کئی ملین ڈالر ادا کرنا ہوں گے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کمپنی کو رشوت دینے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

امریکی کمپنی، براڈ شیٹ، جسے ماضی میں حکومت پاکستان نے سیاستدانوں کی بیرون ملک دولت کا سراغ لگانے کے لیے خدمات حاصل کی تھیں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت نواز شریف سے ان کے سنگار پور کے بینک میں موجود ایک بلین ڈالر کی رقم کے بدلے جیل سے رہا کرنے کی ڈیل کرنا چاہ رہی ہے۔

امریکی اخبار ڈیلی نیوز کالر نے گزشتہ ہفتے اس حوالے سے  ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق اس سال مارچ میں نیب، حکومت پاکستان اور براڈ شیٹ کے درمیان کچھ دستاویزات کا تبادلہ ہوا۔ ان دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان کی حکومت اور نیب کے خودساختہ نمائندے نے امریکی کمپنی براڈشیٹ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ نواز شریف کے بیرون ملک بینک اکاونٹس کامزید پتہ چلائے۔

یاد رہے کہ حکومت پاکستان لندن کی عالمی ثالثی عدالت میں براڈ شیٹ کے ساتھ ساٹھ ملین ڈالر کی رقم کا مقدمہ ہار چکی ہے۔ عدالت نے حکومت پاکستان کو حکم دیا دیا ہے کہ وہ براڈ شیٹ کمپنی کے واجب الادا بائیس ملین ڈالر فوری ادا کرے ۔ حکومت پاکستان نے لندن کی ایک لافرم کے توسط سے لندن ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی ہے۔

نیوز رپورٹ کے مطابق لندن کی ثالثی عدالت میں براڈشیٹ اور حکومت پاکستان کے  درمیان ادائیگی کا مقدمہ بدستور زیر سماعت تھا جب جولائی 2018 میں  عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ انہی دنوں لندن کے ایک وکیل ظفر علی نے براڈشیٹ کے نمائندے سے ملاقات کی اور دعویٰ کیا کہ اس کے پاکستانی ایسٹبشلمنٹ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔

رپورٹ کے مطابق ظفر علی نے بتایا کہ اس کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان سمیت وزیر خزانہ، اٹارنی جنرل اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ وہ عمران  خان کی ہدایت پر ہی یہ ملاقات کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کمپنی کے  سابقہ بقایا جات لوٹانے کے ساتھ ساتھ ایک اور معاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کی دولت کا مزید سراغ لگایا جائے۔ 

کاغذات میں بیان کیا گیا کہ براڈ شیٹ کو اندازہ ہوا کہ سب معاملات ایک پروفیشنل طریقے سے ڈیل کیے جارہے ہیں اور حکومت پاکستان اب ایک ماہر قانون کے ذریعے یہ کیس ختم کرنا چاہ رہی ہے اور موجودہ حکومت واقعی کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہے ۔

انہی دنوں موضاوی نے ظفر علی کو بتایا کہ ان کے انوسٹی گیٹرز نے پتہ چلایا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب سے سنگا پور کے ایک بینک میں نواز شریف کے اکاونٹ میں ایک بلین ڈالر منتقل ہوئے ہیں۔ ظفر علی پرجوش تھا اور براڈ شیٹ کے لیے بھی یہ خوشی کا مقام تھا کہ اسے نہ صرف پچھلے بائیس ملین ڈالر اور اب مزید 25 ملین ڈالر بطور معاوضہ ملیں گے۔

اکتیس جولائی 2018 کو ظفر علی نے موضاوی کو ٹیکسٹ میسج کیا کہ وہ پوائنٹ وائز تمام پریزنٹیشن تیار کردے تاکہ وہ وزیراعظم پاکستان اور دوسرے اعلیٰ حکام کو بریفنگ دے دے۔ مسٹر موضاوی اور ظفرعلی کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئی اور ایک بریفنگ تیار کی گئی جس میں بتایا گیا کہ پچھلی حکومتوں نے کرپشن کی آڑ میں کتنا پیسہ بنایا ہے اور اب ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں فیصلہ آسان ہو جائے گا ۔

پانچ اگست 2018کو ظفر علی نے پاکستان سے موضاوی کو ٹیکسٹ میسج کیا کہ اس کی وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سے میٹنگز ہوگئی ہیں اور ہم آپ سے نئے معاہدے کے قریب پہنچ چکےہیں ۔ موضاوی نے جواب دیا کہ تم نواز شریف سے متعلق ضروری فائلیں ساتھ لے آئو تاکہ براڈ شیٹ ایک بھرپورمعاہدے کی دستاویز تیار کر سکے اور لوٹی دولت کو حکومت پاکستان کو منتقل کیا جا سکے۔

چھ ستمبر 2018 کو ظفرعلی نے موضاوی کو ٹیکسٹ میسج کیا وہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر سے ملاقات ہونے جانے جارہی ہے اور اگلا ہفتہ اہم ہو گا کہ معاہدہ کیا جائے یا نہ۔نو ستمبر 2018کو ظفر علی اور موضاوی کی پاکستانی وکیل شاہد اقبال سے ملاقات ہوئی بقول ظفر علی کے شاہد اقبال، وزیر اعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں اور فائنل میٹنگ ہونے جارہی ہے۔

اٹھائیس ستمبر کو ظفر علی نے موضاوی کو ٹیکسٹ میسج کیا کہ میری اٹارنی جنرل اور لا منسٹر سے ملاقات ہوگئی ہے وہ راضی ہیں ۔۔ براڈشیٹ نے اپنی لافرم کے ذریعے دو نئے کنٹریکٹ تیار کیے ، ایک پچھلے بقایا جات کی ادائیگی سے متعلق تھا اور دوسرا حکومت پاکستان اور براڈ شیٹ کے درمیان آئندہ کیا کرنا ہے سے متعلق تھا جس میں سر فہرست نواز شریف کے ایک بلین ڈالر کا معاملہ تھا۔

جیسے ہی پاکستان کے بااثر حلقوں میں یہ خبر پھیلی کہ سنگاپور کے بینک میں سعودی عرب سے نواز شریف کے اکائونٹ میں ایک بلین ڈالر منتقل ہوئے ہیں ، تو موضاوی کو انداز ہ ہونا شروع ہوا کہ اب ظفر علی کو ان مذاکرات سے پیچھے ہٹایا جا رہا ہے، کیونکہ اس دوران حکومت پاکستان کے کئی اور نمائندے سامنے آئے ۔ ان کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کوئی شفاف ڈیل کی بجائے ا پنا کمیشن اور کک بیکس بھی چاہتے ہیں۔

اسی دوران ظفر علی نے بتایا کہ تمام معاملات طے ہیں ۔ آئی ایس آئی چاہتی ہے کہ وہ براڈ شیٹ سے مل کر کچھ تفصیلات طے کرلے ۔ میں کسی تھرڈ پارٹی کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا جب تک کہ ان سے ملاقات نہ جائے۔ ظفر علی نے کہا کہ پاکستان کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون سی کمپنی ہے جو یہ کام کر رہی ہے اس لیے کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

بہرحال دونوں معاہدوں کا ڈرافٹ حکومت پاکستان کو بھیج دیا گیا ۔ اسی دوران گیارہ اکتوبر کو آرمی چیف جنرل باجوہ کی سربراہی میں ایک ہائی لیول وفد برطانیہ کے دور ے پر آیا۔ اخبار  کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان کاغذات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسٹر موضاوی کو بتایا گیا کہ ایک میجر جنرل جو کہ آئی ایس آئی کے انوسٹی گیشن برانچ کے سربراہ ہیں ان سے ملنا چاہتےہیں۔

موضاوی اور میجر جنرل (جنہوں نے اپنا تعارف جنرل ملک یا مالک کے طور پر کرایاتیرہ اکتوبر کو لندن کے ہمپسٹڈ کے علاقے کیفے روگ میں ان کی ملاقات ہوئی۔ جنرل ملک نے براڈ شیٹ کے دونوں معاہدے پڑھ رکھے تھے، انہیں کرپشن سے متعلق ہونے والی تمام گفتگو اور تفصیلات کا علم تھا اور نواز شریف کے حالیہ ایک بلین ڈالر کی معلومات سے بھی آگاہ تھے۔

جنرل ملک نے موضاوی کو کہا کہ آپ خوامخوہ اپنا وقت ظفر علی سے مذاکرات میں ضائع کر رہے ہیں اب حکومت پاکستان میں دوسرے لوگ ہیں جو ان دو معاہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ جنرل ملک نے واضح طور پر موضاوی کو کہا حکومت دونوں معاہدوں پر فوری طور پر سائن کرنے کو تیار ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں (آئی ایس آئی کو کک بیکس کی صورت میں کتنا کمیشن ملے گا۔

جنرل ملک نے وزیراعظم ہائوس کے ایک اعلان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کے 100 بلین ڈالر کا سراغ ملا ہے جس میں سے ۲۵ بلین ڈالر کمیشن ادا کرنا ہے۔ جنرل ملک نے کہا کہ پاکستان کے لوگ حیران ہیں کہ آپ 25بلین ڈالر کیسے ایک کمپنی کو کمیشن کے طور پر دے رہے ہیں ۔

مسٹر موضاوی نے واضح کیا کہ انھیں وزیر اعظم کے دعووں کا کوئی علم نہیں ۔ ہمیں تو صرف ایک بلین ڈالر کا پتہ ہے جو سنگاپور ٹرانسفر ہوئے ہیں۔ بہرحال جنرل صاحب اپنے کمیشن پر اڑے رہے لہذا یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی ۔

براڈ شیٹ کے وکیل نے نیب(حکومت پاکستان )کو مطلع کیا کہ حکومت پاکستان نیا معاہدہ سائن کرنے میں کوئی دلچسبی نہیں رکھتی۔ کیونکہ مسٹر موضاوی نے پاکستانی حکام کو رشوت یا کک بیکس دینے سے انکار کردیا ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف کام کر رہے ہیں اور تمام معاملات کو قانون کے دائر ے میں رہ کر شفاف رکھنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان جرنیل، نواز شریف سے ڈیل کرکے اس رقم کے بدلے انہیں رہا کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال پاکستانی جرنیلوں کی طرف سے رشوت مانگنے پر نئے معاہدوں پر دستخط نہ ہوسکے ۔ کمپنی نے اپنی لا فرم کے ذرئعے پاکستان کو لکھے گئے خط میں امکان ظاہر کیا کہ موجودہ حکومت اور جرنیل نواز شریف کو رہا کرنے کو تیار ہے اگر ان کو ایک بلین ڈالر کی وہ رقم ادا کردے۔

براڈشیٹ اور پاکستان کے مابین معاہدوں کا ماضی ۔۔

یاد رہے کہ اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف نے نوا ز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگایا ۔ ان کے احتساب کے لیے اس نے قومی احتساب بیورو کے نام سے ادارہ بنایا۔ سال2000میں جنرل مشرف کی حکومت نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی بیرون ملک دولت کا سراغ لگانے کے لیے ایک امریکی کمپنی براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کیں ۔ کمپنی سے معاہدے کے مطابق جتنی بھی رقوم یا اثاثے دریافت ہوئے اس کا ۲۵فیصد بطور کمیشن کمپنی کو ادا کیا جانا تھا۔

پاکستانی میڈیا میں اس ایشو پر مکمل خاموشی ہے ۔ ایک انگریزی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل نےبارہ مئی کو اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے مگر اخبار نے اس رپورٹ سے جرنیلوں کا ذکر حذف کر دیا ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے اصل رپورٹ کا لنک درج ذیل ہے

https://dailycaller.com/2019/05/09/pakistan-corrupt-prime-minister-prison/

One Comment