پاکستان میں شیعہ مسنگ پرسنز  کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے 

ریاست پاکستان میں بلوچ، پختون اور سندھیوں کے بعد شیعہ مسنگ پرسنز کی تعداد بھی سامنے آئی ہے۔ جس کا عموماً ذکر نہیں ہوتا۔

سولہ نومبر دو ہزار سولہ کی رات تیس سالہ نعیم حیدر کو سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا۔ ان کا آج تک نہ تو کسی کو کوئی پتہ چلا ہے اور نہ ہی کوئی سکیورٹی ادارہ ان کی گرفتاری کا اعتراف کرتا ہے۔

نعیم حیدر کراچی سے تعلق رکھنے والے ان 47 اہل تشیع افراد میں شامل ہیں، جن کی جبری گمشدگی کے خلاف صدر پاکستان عارف علوی کی کراچی میں نجی رہائش گاہ کے باہر گزشتہ تین دنوں سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ ان کے گمشدہ اہل خانہ اور اقربا کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے اور اگر ان کے خلاف کوئی باقاعدہ الزامات اور شواہد ہیں، تو عدالت میں پیش کر کے ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔

اس دھرنے میں نعیم حیدر کی ہمشیرہ سیما سلطانہ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ موجود ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نعیم حیدر کی سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے تاہم ان کے بارے میں کوئی بھی سرکاری ادارہ کسی بھی طرح کی معلومات دینے کو تیار نہیں ہے۔ سیما سلطانہ نے کہا، ’’چھ جون کو ملڑی انٹیلیجنس کی ایک رپورٹ ملی، جس میں اس بات کا اقرار کیا گیا تھا کہ نعیم اور ان کے علاقے سے اسی روز لا پتہ کیے گئے چار دیگر افراد کو ایم آئی نے گرفتار کیا تھا۔

یہ انتہائی خفیہ رپورٹ بھی ہم نے اپنے ہی ذرائع سے حاصل کی تھی، جس کے بعد ہم نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا۔ہمارے پاس ہائی کورٹ کے احکامات ہیں کہ ان افراد کو ان کے اہل خانہ سے ملوایا جائے۔ لیکن اس کے باوجود نہ ایسی کوئی ملاقات کرائی جا رہی ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی اطلاع دی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اب اس احتجاجی دھرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

اس دھرنے کے شرکاء کی نمائندگی کرنے والے افراد میں سے ایک علی احمد بھی ہیں، جن کے ایک بھائی اور بھتیجے کو بھی 16 نومبر 2016ء ہی کی رات ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ان گرفتاریوں کی ایک قریبی امام بارگاہ پر لگے سی سی ٹی وی سے فوٹیج بھی حاصل کی جا چکی ہے اور اسے عدالت میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ ہماری درخواست زیر التواء ہے اور ہم ہر ادارے کا اس امید پر در کھٹکھٹا رہے ہیں کہ ہمیں ان افراد کے بارے میں کچھ تو بتایا جائے۔ کم از کم یہی بتا دیا جائے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اپنے آئینی حق کے لیے بھی احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔

ریاستی قانون کہتا ہے کہ اگر کسی کو گرفتار کیا گیا ہے، تو اسے 24 گھنٹوں کے اندر اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش کیا جائے۔ پھر جو بھی تفتیش کرنا ہو، وہ اس کے بعد کی جائے۔ لیکن یہاں تو ڈھائی سال سے کچھ خبر ہی نہیں۔ یہاں تک کہ دس ماہ قبل یہ اقرار کیا گیا کہ یہ افراد ملٹری انٹیلیجنس کی تحویل میں تھے۔ اس کے باوجود انہیں اب تک کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام جبری طور پر گمشدہ 47 افراد کو فوراﹰ رہا کیا جائے، لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے، تو اسے ثابت کرنے کے لیے انہیں عدالتوں میں پیش تو کیا جائے‘‘۔

انہی جبری طور پر گمشدہ افراد میں سے ایک انجینئر ممتاز حسین بھی ہیں، جن کی اہلیہ اپنی دو بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ اس دھرنے میں شریک ہیں۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ممتاز حسین ایک سال قبل کوئٹہ سے واپسی کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک اعلیٰ عدالت میں مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، جس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اسی طرح اپنے ہاتھوں میں دو لاپتہ نوجوانوں کی تصویر تھامے ایک اور خاتون بھی دھرنے میں موجود ہیں، جنہیں ان کے دو بیٹوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ اس دھرنے میں ایسے افراد کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، جن کی جبری گمشدگیوں کو آٹھ آٹھ سال سے بھی زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن جن کے بارے میں آج تک کسی کو کوئی خبر نہیں ہے۔

اس دھرنے کے منتظم سید صغیر عابد رضوی کا کہنا ہے، ’’یہ دھرنا ختم کرنے کے لیے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود اس بار ہم یہ فیصلہ کر کے بیٹھے ہیں کہ جب تک صدر مملکت ذمہ دار سکیورٹی اداروں کے ذمہ دار اہلکاروں کے ساتھ ہماری بات نہیں سنتے، تب تک ہم یہ دھرنا جاری رکھیں گے۔ یہ تمام گرفتاریاں اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ وہ سب کی سب غیر قانونی تھیں‘‘۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ کافی حساس صورت اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران پچھلے برس ہی سب سے زیادہ جبری گمشدگیوں کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ یہ انکشاف لاپتہ افراد کی گمشدگیوں کا پتہ لگانے کے لیے قائم کردہ انکوائری کمیشن کے اعداد و شمار سے ہوا ہے۔ اس انکوائری کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015 میں 649 شکایات وصول ہوئیں جبکہ اسی طرح 2016 میں 728، 2017 میں 868 اور 2018ء کے پہلے دس ماہ کے دوران 899 افراد لاپتہ ہوئے تھے۔ ان اعداد و شمار میں گزشتہ برس نومبر اور دسمبر میں کی جانے والی شکایات شامل نہیں ہیں۔ اس انکوائری کمیشن کا دعویٰ ہے کہ اس نے 2018ء میں ایسی 557 شکایات نمٹائی تھیں۔

DW/Net News

Comments are closed.