ہم پاکستانی

میری دوست مس زینی آ رہی ہے۔ ان کا خیال رکھیے گا۔

مجال میڈا سوہنڑاں
بندہ بشر بچے کی ماں سے مجال سے پیش نا آئے تو مارا نا جائے۔
دو دن بعد مس زینی کا استقبال کرتے ہوئے سوچنے لگے میرے مولا تُو نے اتنے حسین چہرے کہاں کہاں چھپا رکھے ہیں۔

گھر آئے۔آرام کرنے کے بعد باتیں ہونے لگیں تو معلوم ہوا کہ دبئی کے باشندوں کی خوشحالی اور خوش اخلاقی سے متاثر ہو کر یہ پاکیزہ دل اپنے آبائی عقیدے کو چھوڑ چکا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دورے میں اپنے نئی سوچوں کی پختگی کو سنوارنے آئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو سمجھنے اور بولنے کی لگن بھی اس حسینہ کی دیدنی تھی۔

ایک رات ڈان نیوز کے آخری پروگرام دیکھنے کے بعد بولیں مجھے جنید حفیظ کا کیس سمجھائیں عرض کیا ہمارے شہر کا یہ جوان میٹرک اور انٹر میں پوزیشن لینے کے بعد میڈیکل کے شعبے میں چلا گیا۔
وہاں دل نا لگا تو امریکی وظیفے پر لٹریچر کی دنیا کی راہ لی۔
واپس آیا تو ملتان یونیورسٹی میں استاد بن گیا اور کافر بنا دیا گیا۔

کیا مطلب؟
کافر بنائے جاتے ہیں یہاں؟

آپ گوروں نے پوری دنیا کو اُلو کا پٹھا بنایا ہوا ہے ہم ایک آدھ کافر بنا لیتے ہیں تو ماتھے پر بل آ جاتا ہے۔

یہ کافر کیا ہوتے ہیں؟

جو ہماری سچائیوں کو تسلیم نا کرے۔

آپ کی سچائی کیا ہے؟

ہم جو کچھ کہیں وہ سچ ہے۔
کیونکہ ہم خدا کی پسندیدہ امت ہیں۔

باقی دنیا کیا ہے؟

وہ کافر ہے۔

وہ سٹپٹائی۔

تو پھر کیا ہوا؟

ہوا یہ کہ مسلمانوں نے کہا یہ کفر بکتا ہے۔

کیا وہ مسلمان نہیں تھا؟

وہ تو کہتا تھا۔

تو پھر؟

پھر یہ کہ پاکستان میں آپ خود کو جو کچھ کہیں وہ دوسرے نہیں مانتے۔
آپ وہ ہوتے ہیں جو دوسرے سمجھتے ہیں۔

پھر کیسے اپنا مسلمان ہونا ثابت کریں؟

اب آپ نے ٹھیک سمجھا۔
یہاں سرٹیفیکیٹ لینا پڑتا ہے۔

تو مجھے بھی سند لینا پڑے گی؟

جی بالکل۔

کیسے اور کہاں سے؟

کچھ عرصہ محلے کی مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر رہنے کے بعد گول باغ ملتان، میلسی سے ہوتے ہوئے اچھرہ، منصورہ، رائے ونڈ اور آخر میں آب پارہ کی لال مسجد کی بین الاقوامی یونیورسٹی سے سند جاری ہو گی۔
لیکن سال میں ایک دفعہ عرب کے سفر سے مشروط۔
وقتاً فوقتاً نذر نیاز کا سلسلہ جاری رہے تو سند تر و تازہ رہے گی۔

لیکن میں تو اتنا عرصہ یہاں نہیں رہ سکتی۔

ایسا نہیں۔
آپ باہر بیٹھ کر بھی اپنے ایمان کی تجدید کرا سکتی ہیں۔
حسینہ کے چہرے پر کچھ مُسکان نظر آئی۔

یہاں سے آنے والے پُر عزم مسافروں کی میزبانی کا شرف حاصل کر کے۔

شکر ہے میرے مولا۔

تو جنید کا کیا بنا؟ آپ لوگ بھی نا کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔

بی بی آپ ہی سوالات چھیڑ رہی ہیں ہم تو آرام سے لسی پی رہے تھے۔
تو جنید توہین رسالت میں گرفتار ہوا۔

یہ توہین رسالت کیا ہوتی ہے؟

ہمارے آقا و مولا حضور علیہ صلواۃ والسلام کی شان میں گستاخی کو توہین رسالت کہتے ہیں۔۔۔

سرمد نے بہن کا نمبر ملایا اور مادری زبان میں کہنے لگا


ادی تیڈی کلاس فیلو ساڈا چَیتا پِیتی ویندی اے اساں تھوڑے ہاؤں

فون رکھنے کے بعد سرمد بولا
بی بی کن چکروں میں پڑ گئی ہے تو۔ گستاخی گستاخی ہوتی ہے اور بس۔
گستاخی کی اہمیت کے بارے میں اتنا بتا دیں کہ ہمیں بے گناہ کا قتل قبول ہے۔ ڈنکے کی چوٹ پر رشوت ہم برداشت کر لیتے ہیں۔
لاوارث خاتون کو اغوا، معصوم بچوں اور عورتوں کو گولیوں سے اڑا دینا ہمیں گوارا ہے۔۔۔ لیکن ہم اپنے نبی کی بے حرمتی پر کٹ مرنے کو تیار رہتے ہیں۔

بدیشی حسینہ دیدے پھاڑے ہمیں دیکھے جا رہی تھی اور حواس باختگی میں اس کے ہاتھ سے تسبیح بھی گر گئی۔

آہ بھر کر بولی آپ نے مجھے الجھا کر رکھ دیا ہے۔

اور ہم گستاخی کے مجرم کو اپنے انجام تک پہنچا کر دم لیتے ہیں دوسری بات یہ کہ ہمارے ملک میں عدالتوں میں چلنے والے کیس میں ملزم تاخیری حربے کے ذریعے اپنی سزا کو ٹالتا رہتا ہے لیکن گستاخی کے کیس میں ہم الٹا کرتے ہیں گستاخ ملزم کوشش کرتا ہے کہ اس کے کیس پر جلد از جلد فیصلہ ہو لیکن ہم ججوں اور وکیلوں کے ساتھ مل کر کیس کو چھوٹی عدالتوں میں لٹکائے رہتے ہیں اور ملزم جیلوں میں گل سڑ جاتا ہے۔

آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

اس لئے کہ چھوٹی عدالتوں سے کیس چلتے چلتے سپریم کورٹ میں پہنچتا ہے اور سپریم کورٹ کے جج کیس کو عقل، ثبوت اور دلائل کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور آپ کو بخوبی معلوم ہونا چاہئے کہ عقیدے اور گستاخیاں عیار عقل کے آگے کہاں ٹھہر سکتے ہیں لہذا ملزم بری ہو جاتا ہے اور ہمارا جذبہ ایمانی گستاخوں کو بری ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔

رزاق شاہد

Comments are closed.