برق گرتی ہے محض بیچارے مسلمانوں پر

ظفر آغا

لیجئے چناؤ ختم ہوئے کوئی ایک ماہ کی مدت گزرنے کو آئی۔ دیکھتے دیکھتے ممبران پارلیمنٹ کی حلف برداری بھی ہو گئی۔ اور تو اور جناب پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس بھی شروع ہو گیا۔ مودی حکومت کی جانب سے لوک سبھا میں پہلا بل بھی پیش ہو گیا۔ جانتے ہیں وہ بل کس بات سے تعلق رکھتا ہے! جی ہاں، وہ بل طلاق ثلاثہ ختم کرنے کو قانونی جامہ پہنانے سے تعلق رکھتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے مینوفیسٹو میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آئی تو طلاق ثلاثہ ختم کرے گی۔

لیکن آخر اس بات کی کیا جلدی تھی کہ اقتدار میں آتے ہی مودی حکومت کا پہلا قانون سازی کا عمل طلاق ثلاثہ کو ہی ختم کرنا ہو! سیاست میں عموماً باتیں اشاروں (جس کو ان دنوں انگریزی میں سگنل کہا جاتا ہے) کی شکل میں ہوتی ہیں۔ طلاق ثلاثہ بل کو سب سے افضلیت دے کر مودی حکومت نے اس بات کا سگنل دے دیا ہے کہ اس حکومت میں بالخصوص مسلم اقلیت کے تعلق سے کسی خصوصی مراعات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

میں یہاں یہ عرض کر دوں کہ راقم الحروف شاہ بانو معاملے کے وقت سے ذاتی طور پر طلاق ثلاثہ کے حق میں نہیں رہا ہے۔ قرآن کی رو سے طلاق ثلاثہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خود پرسنل لاء بورڈ طلاق ثلاثہ کو طلاق بدعت تسلیم کرتا ہے، اور اس کو ایک لعنت گردانتا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ طلاق ثلاثہ کے حق میں مسلمانوں کی جانب سے جو تحریک چلائی گئی اس سے سیاسی اعتبار سے سنگھ اور بی جے پی کو بہت فائدہ پہنچا۔ کیونکہ بی جے پی نے اس وقت اڈوانی کی قیادت میں اس مسئلہ کو ملک کا مرکزی سیاسی مسئلہ بنا کر ہندو رد عمل پیدا کیا، جس کے بعد اس کو رام مندر تحریک کھڑی کرنے میں بہت مدد ملی۔

خیر وہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن اس وقت مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ کو باقی تمام باتوں پر افضلیت دے کر یہ کھلا اشارہ دے دیا کہ اس کی افضلیت ہندو راشٹر کا قیام ہے اور اس ہندو راشٹر میں مسلمانوں کے لیے کوئی خصوصی یا عمومی اختیارات نہیں ہوں گے۔ یہ تو رہی قانون اور آئین کے حدود کے اندر کی بات۔

جہاں تک پارلیمنٹ کے باہر کا سوال ہے تو جس روز یہ مضمون لکھا جا رہا تھا اسی روز پونا شہر میں ایک مسلم شخص کو سڑک پر گھیر کر پیٹا گیا اور اس سے زبردستی ’جے سیا رام‘ اور ’وندے ماترم‘ کے نعرے لگوائے گئے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل ایسے دو تین واقعات کی خبریں آچکی تھیں۔ یعنی سنگھ پریوار کی جانب سے یہ سگنل صاف تھا کہ اب اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہمارے رحم و کرم پر جینا ہوگا۔ لب و لباب یہ کہ مودی حکومت کے اگلے پانچ سال مسلم اقلیت کے لیے پل صراط پر سفر کی مانند ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!۔

خیر، یہ تو رہی مودی حکومت کی اقلیتوں کے تعلق سے شروعات۔ لیکن زمینی حقیقت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو مودی کو ووٹ دینے والی ہندو اکثریت کے بھی حق میں نہیں ہے۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں حکومت کو اپنا پہلا بجٹ پیش کرنا ہے۔ لیکن ملک کی معیشت بدحال ہے۔ خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں پچھلے 45-40 برسوں میں کبھی بے روزگاری اس قدر عروج پر نہیں تھی جیسی فی الحال ہے۔ خود ہماری ویب سائٹ پر یہ خبر لگی ہے کہ حکومت خود سرکاری نوکریوں میں کٹوتی کرتی جا رہی ہے۔ یعنی حکومت کے پاس جو خالی نوکریاں پڑی ہوئی ہیں حکومت ان کو بھی پر نہیں کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب سرکار نوکری دینے کو راضی نہیں تو پھر پرائیویٹ نوکریاں کہاں سے آئیں۔ اور آئیں تو آئیں کیسے۔

اکیلے کار انڈسٹری کا یہ عالم ہے کہ 52000 کاریں اور اسکوٹر موٹر سائیکلیں کارخانوں اور دکانوں پر کھڑی ہیں جن کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ حالت یہ ہے کہ ابھی پچھلے ہفتے ٹاٹا موٹرز، ماروتی، مہندرا اور ہونڈا جیسی مشہور کار کمپنیوں نے یہ اعلان کر دیا کہ اب وہ کار بنانا بند کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کار فیکٹریوں میں کام نہیں ہوگا تو وہاں بھی کام پر لگے لوگ باہر کیے جائیں گے۔ ادھر ہوائی جہاز رانی انڈسٹری کا یہ عالم ہے کہ جیٹ ائیر ویز بند ہو چکی ہے اور اس میں کام کرنے والے ہزاروں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔

اسی طرح قرضوں کے بوجھ سے دبے بینک ڈوبنے کے دہانے پر ہیں۔ کسان ہاہاکار کر رہا ہے۔ بازاروں اور دکانوں میں خاک اڑ رہی ہے۔ اب ان حالات میں وزیر خزانہ سیتارمن کیا بجٹ پیش کریں گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ بس عوام کو بہلانے کے لیے لمبے چوڑے اعلانات ہوں گے۔ کسانوں کی مدد کے لیے اتنے ہزار کروڑ روپیہ، بے روزگاری کم کرنے کو سینکڑوں نئی اسکیم، گھر گھر پانی پہنچانے کے لیے اتنے لاکھ کروڑ کی مراعات، غریبوں کو اتنے لاکھ سستے مکانات وغیرہ وغیرہ جیسے درجنوں اعلانات ہوں گے جن کے کوئی معنی و مطلب نہیں ہوں گے۔ وہ محض عوام کو مایا جال میں پھانسے رکھنے کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہوں گے۔

اور نریندر مودی یہ کیوں نہ کریں! کیونکہ ملک کی جس معاشی بدحالی کا خاکہ اوپر پیش کیا گیا وہ کوئی ایک ہفتے یا ایک ماہ پرانی صورت حال تو ہے نہیں۔ جب سے ملک میں نوٹ بندی لاگو ہوئی اور جی ایس ٹی ٹیکس عمل میں آیا تب سے ملک کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ محض امبانی و اڈانی جیسے چند بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ مودی راج کے تقریباً پچھلے تین سالوں میں اس حکومت سے کسی کو کچھ نصیب نہیں ہوا۔ ملک میں مالیہ اور نیرو مودی جیسے لوگ بینکوں کو لوٹ کر ملک سے بھاگتے رہے لیکن حکومت کے ماتھے پر شکن بھی نہیں پڑی۔

بھلا حکومت کو فکر کیوں ہوتی کہ ملک کی معیشت بد سے بدتر کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ نریندر مودی کو یقین تھا کہ وہ ایک سیاسی اسٹنٹ کریں گے اور عوام اپنی تمام پریشانیاں بھول کر ان کو ہی ووٹ ڈالے گی۔ بس مودی کو ایک دشمن کا حوا کھڑا کرنا ہوگا۔ لیکن وہ فرضی دشمن کے ساتھ لفظ مسلم ضرور جڑا ہونا چاہیے۔ کیونکہ سنہ 2002 میں گودھرا حادثہ کے بعد سے مودی مسلم دشمن کھڑا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بس اس کے بعد ہندو اکثریت کے دلوں میں مسلم خوف طاری ہو جاتا ہے۔ اور بس اس صورت حال میں مودی خود کو ہندو اَنگ رکشک یعنی ہندو محافظ کا روپ دھارن کر ہندو رد عمل پر چناؤ جیت جاتے ہیں۔ ملک کی معاشی حالت جائے بھاڑ میں۔ جب مسلم منافرت پر عوام سب بھول کر ایک پلوامہ پر مودی کو برسراقتدار لانے کو تیار ہوں تو پھر مودی کو فکر کاہے کی!۔

فکر ہو تو بے چارے مسلمانوں کو! کیونکہ ملک میں معاشی حالات جس قدر بدتر ہوں گی اتنا ہی حکومت مسلم منافرت پھیلانے پر مجبور ہوگی تاکہ اکثریت اپنے مسائل بھول کر مسلم منافرت کے مایا جال میں پھنسی رہے اور مودی حکومت ٹھاٹ سے چلتی رہے۔ ملک کی معیشت ابھی سے ہی خستہ ہے اور نہ ہی اس حکومت کو حالات سدھارنے کی کوئی فکر ہے۔ اس کو یہ معلوم ہے کہ انگریزوں کی طرح بانٹو اور راج کرو کی حکمت عملی اس کو اقتدار میں قائم رکھنے کو کافی ہے۔ اس لیے اگلے پانچ سالوں میں بھی وہی بانٹو اور راج کرو کی سیاست چلتی رہے گی۔ اور مودی مودی کے نعرے لگتے رہیں گے۔ لیکن ان پانچ سالوں میں برق گرے گی تو بس بیچارے مسلمانوں پر جو بقول علامہ اقبال نہ جانے کب سے ان کی قسمت ہو چکی ہے۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا

Comments are closed.