تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر شمالی کوریا میں، اور کم جونگ سے مصافحہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریائی سرزمین میں داخل ہو کر چیئرمین کم جونگ اُن سے مصافحہ کیا۔ امریکی صدر نے شمالی کوریائی لیڈر سے جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے پانمن جوم میں ملاقات کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار تیس جون کی سہ پہر شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن کے ساتھ جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے پانمن جوم میں ملاقات کی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے پرجوش مصافحہ کیا اور تصاویر بھی بنوائیں۔ کم جونگ اُن سے ملاقات کی تجویز خود ٹرمپ نے ہی جی ٹوئنٹی سمٹ کے اختتام پر اور اپنے جنوبی کوریائی دورے سے قبل پیش کی تھی۔

مصافحے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب بھی ایک بڑا قدم ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا۔ بارہ جون سن 2018 کے بعد ٹرمپ اور اُن کی یہ تیسری ملاقات تھی۔

امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے ساتھ شمالی کوریا میں اس مختصر ملاقات سے دو طرفہ تعلقات میں یقینی طور پر بہتری پیدا ہو گی۔ شمالی کوریائی لیڈر نے اس ملاقات کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ اس کے مستقبل میں کیے جانے والے اقدامات پر بھی بہترین اثرات مرتب ہوں گے۔

جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پانمن جوم کے مقام پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کو شاندار قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا وہ یقین رکھتے ہیں کہ انہی تعلقات کی بدولت مختلف امور میں پائی جانے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکے گا۔

یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ ٹرمپ کے ساتھ جنوبی کوریائی صدر مُون ژے یِن بھی تھے۔

غیر فوجی علاقے کی جانب روانہ ہونے سے قبل امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ ملاقات بہت مختصر ہو سکتی تھی۔ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان رواں برس ویتنام کے دارالحکومت ہنوئے میں بھی ایک ملاقات ہو چکی ہے۔ دونوں لیڈروں کی ہنوئے سمٹ بغیر کسی پیش رفت کے ہی ختم ہو گئی تھی۔

DW

Comments are closed.