مودی کا ہندوتوا اور جناح کا دوقومی نظریہ

لیاقت علی

جناح اورمودی کے مابین زمانی بعدکے باوجود نظریاتی ہم آہنگی بہت زیادہ ہے۔دونوں مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن دونوں کو یہ ادراک بھی ہے کہ مذہب کے استعمال سے وقتی سیاسی فوائد تو سمیٹے جاسکتے ہیں لیکن ریاستی اورحکومتی امور کو تادیر مذہب کے نام پر نہیں چلایا جاسکتا اور جدید ریاست چونکہ ایک پیچیدہ سیاسی مظہر ہے اسے مذہبی سادگی کے نام پرنہ تو اکٹھا رکھا جاسکتا ہے اورنہ ہی موثر انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔

جہاں تک جناح کاتعلق تھا ان کے لئے مذہب اول و آخر سیاسی ہتھیارتھا۔ وہ نہ تو خود روایتی انداز میں مذہب کے پریکٹیشنر تھے اورنہ ہی اس کے مبلغ۔ وہ جہاں سمجھتے تھے کہ مذہب سیاسی اور سماجی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال ہوسکتا ہےاسے استعمال کرتے اور جہاں وہ خیال کرتے کے مذہب کے سیاسی استعمال سے لا تعلقی ضروری ہےوہ نہایت آسانی سے اسے چھوڑ کرعلیحدہ کھڑے ہوجاتے۔

قیام پاکستان کے فوری بعد 11۔ اگست 1947 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں ان کی تقریر سیاسی و نظریاتی موقع پرستی کی کلاسیکی مثال ہے۔ وہ دو قومی نظریہ۔۔ مسلمان اور ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں۔۔ کی بنا پر ریاست تخلیق کرتے ہیں لیکن اس ریاست کی تخلیق کے اگلے روز ہی کہتے ہیں کہ ریاست کا اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہر شہری کا شخصی عقیدہ ہے۔

ان کی اس تقریر کے حوالے سے یہ سوال پوچھا جاسکتا تھا کہ اگر ریاست کا اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا تو پھر پاکستان کی علیحدہ ریاست کے قیام کا کیا جواز تھا؟۔ آپ تو پاکستان کو اسلام کی لیبارٹری بنانے جارہے تھے اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ریاست کا شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس سے زیادہ نظریاتی و سیاسی وعدہ خلافی اور کیا ہوگی؟

جناح نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مسلمان ہندووں کے ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن حالت یہ ہے کہ گذشتہ بہتر سالوں میں فرقہ ورانہ فسادات میں جتنے مسلمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں اتنے بھارت میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات میں ہلاک نہیں ہوئے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ کوئی مذہبی تہوار ہائی سکیورٹی کے بغیر نہیں منایا جاسکتا۔ یہ کیسا مسلمان ملک ہے جہاں مسلمان مسلمان کا گلہ کاٹتا اور اسلام زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔

جناح کی طرح مودی نے بھی اپنی تمام تر انتخابی مہم ہندوتوا پر چلائی۔ ہندوتوا جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ مسیحیوں اور دیگر مذاہب کی بھی مخالف ہے اور بھارت کو صرف اور صرف ہندووں کا ملک قرار دینے پر مصر ہے۔ لیکن الیکشن جیتنے کے بعد انھوں نے سب بھارتیوں کو بلا لحاظ مذہب ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے۔ اب وہ ہندتوا کے نظریہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور سب کا بھارت کے نام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔

جس طرح جناح نے اپنی پہلی کابینہ میں جوگندر ناتھ منڈل کو شامل کیا تھا اسی طرح مودی نے بھی اپنی پہلی 57 رکنی کابینہ میں صرف ایک مسلمان مختاررضوی کو شامل کیا ہے جس کا تعلق آندھرا پردیش سے ہےحالانکہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی یوپی اور بہار میں ہے۔ اگر سب کو ساتھ ہی کرچلنا آپ کا مقصد تھا تو پھر یہ مذہبی تفریق کے نام پر انتی متشد د انتخابی مہم کیوں چلائی تھی؟ ۔مذہب کو الیکشن جیتنے کے لئے استعمال کر لیا اور جب اقتدار مل گیا توسب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کردیا۔

جناح نے بھی لاکھوں مسلمانوں کو فرقہ ورانہ فسادات مروانے کے بعد کہہ دیا کہ ریاست کا اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

Comments are closed.