دَس  میں کِی خلا وِچوں کھٹیا؟

طارق احمدمرزا

چند دن قبل تاریخ میں پہلی بار امریکی خلابازوں کے  چاندپراترکرچہل قدمی کرنے کی پچاس سالہ تقریبات دنیا بھر(خصوصاً ترقی یافتہ ممالک )میں بڑے ا ہتمام سے منائی گئیں۔نامورسائنسدان  مشن اپالو گیارہ   (1969) میں اپنے اپنے  ممالک کے حصہ  کی مساعی اور کامیابیوں کی تفصیلات  بیک وقت نہایت  انکسار اورفخر اورمسرت کے  ملے جلے   جذبات  کےساتھ  سیدھے سادھے  عام فہم الفاظ میں میڈیاپر پیش کرتے رہے۔

ٹی وی پروگراموں میں ان ممالک کی نئی نسل  کے نمائندے بھی  اپنی اپنی بساط کے مطابق مستقبل  کے لئے مختلف خلائی پراجیکٹ تیارکرکے پیش کر رہے تھے ۔ان پروگراموں کو دیکھ دیکھ کر میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال ابھرتا تھا اور وہ (شاعر سے معذرت کے ساتھ) یہ کہ دس میں کی خلا وچوں کھٹیا؟۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ سنہ 1961 میں ، جب  میں محض ایک سال  کاطفل شیرخوار تھا اورہنوزگھٹنوں کے بل  رینگا کرتا تھا ، پاکستانی نوبل انعام یافتہ  سائنسدان   ڈاکٹر عبدالسلام نے میرے ہم نام   ایک  27 سالہ   انجنئر طارق  مصطفیٰ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ  ان کے ساتھ  امریکی خلائی تحقیقاتی ادارہ  ناساکا دورہ کریں اور ناسا کے تعاون سے ان کے ساتھ مل کر پاکستانی خلائی سائینسی تحقیقات کا آغاز کریں۔ڈاکٹر عبدالسلام ان دنوں صدرپاکستان ایوب خان کے  چیف سائنسی مشیرہوا کرتے تھے۔

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ناساکو اس بات کی ضرورت تھی کہ ایشیا،خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا   اور بحرہندکے اوپر فضائی اور خلائی ماحول کی جانچ پڑتال  کی جائے اور مستقبل کے جملہ  خلائی مشن  کے لئے  اس خطے میں بھی ان کے معاون  تیار یادستیاب  کئے جا سکیں۔ڈاکٹر عبدالسلام نے صدر ایوب خان کی اجازت سے  پاکستان کی طرف سے اس پلان   میں شرکت کی ہامی بھری اور یوں پاکستانی فضائی اور خلائی تحقیقاتی ادارہ  سپارکو کا قیام عمل میں آیا جس نے بہت ہی کم عرصہ    کے اندر اندریعنی  جون 1962 میں ناسا کے تعاون سے پاک سرزمین سے   اپنا پہلا راکٹ رہبر اول”  خلا میں بھیج دیا۔

انجنئرطارق مصطفیٰ اس   مشن کی ٹیم کے سربراہ تھے۔آپ پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے پرنسپل انجینئر مقررہوئے۔آپ کے ساتھ ناسا میں راکٹ لانچنگ کی تربیت لینے والوں میں جناب سلیم محمود،جناب سکندر زمان، جناب اے زیڈ فاروقی،اور محکمہ موسمیات کے جناب ایم رحمت اللہ  بھی شامل  تھے۔

یہ ایک نہایت ہی شاندارکامیابی تھی پاکستان کی۔پاکستان  اس قسم کاکامیاب خلائی تجربہ کرنے والا جنوبی ایشیا کا بھی اور مسلمان دنیا کابھی پہلا ملک تھا۔جبکہ پورے  ایشا کاتیسراا وردنیا بھر کا دسواں ملک  !۔

واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹرعبدالسلام سپارکو کے پہلے  ایڈمنسٹریٹر اور ڈائریکٹرتعینات ہوئے تھے۔جبکہ صدرپاکستان  اس کے براہ راست  سربراہ تھے۔ڈاکٹر سلام نے محترم  عشرت عثمانی (شریک ڈائریکٹرسپارکو)کے ساتھ مل کر پاکستان اٹامک انرجی کمشن  کی داغ بیل بھی ڈالی۔کہا جاتا ہے کہ ان دونوں اصحاب نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سنہ 74 میں مبینہ طورپر اس لئے  استعفیٰ دے دیا تھا کہ بھٹو ایٹمی توانائی کو امن  مقاصد کی بجائے نیوکلیئر بم بنانے  کے  لئے استعمال کرناچاہتے تھے۔بھٹو نے عشرت عثمانی کی جگہ  جناب منیر خان کو پاکستان اتامک انرجی کا چیئرمین مقررکیا اور کہا کہ وہ براہ راست ان(بھٹو) کو جوابدہ ہونگے۔

محترم عشرت عثمانی  صدق دل سے یہ ایمان رکھتے تھے کہ ایٹم کو بم بناکرپھاڑناگناہ کبیرہ ہے۔ڈاکٹر سلام بھی ان کے ہم خیال تھے۔انہیں تو سنہ 1968 میں  ایٹم برائے امن میڈل   بھی مل چکا تھاجس کی رقم انہوں نے  ایسے ذہین پاکستانی طلباء   کے لئے وقف کردی تھی  جو فزکس میں اعلیٰ تعلیم  حاصل  کرناچاہتے تھے۔ کچھ غیرملکی مبصرین کادعویٰ تھا کہ  ایٹم بم  بنانے کے سلسلہ میں  ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ڈاکٹر سلام کی پشت پناہی حاصل تھی جس کی ڈاکٹر سلام نے  تحریری طورپرسختی سے تردیدکی تھی۔یہ سب باتیں آن ریکارڈ ہیں  اور تاریخ کا حصہ۔

جب سپارکو ایک خودمختار ادراہ قرار دیا گیا تو اس کے پہلے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرائر کموڈورولادی سلاؤ  جوزف  تورووچ  مقررہوئے جو ایک پولش پاکستانی تھے۔وطن  کا وفاداریہ پولش پاکستانی  ایک ایسا گمنام  قومی ہیروہے جس کی کہانی آئیندہ کسی تحریر میں قارئین  کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔

بھارت ان دنوں اس میدان میں بہت پیچھے تھا،اس نے  توسنہ 1961 میں میری طرح  بھی رینگنا شروع نہیں کیا تھا۔

لیکن آج کیا صورتحال ہے؟۔بھارت  آج دنیا بھر کے ممالک کے لئے خلا میں ان کے سیٹیلائٹ سیارچے اپنی سرزمین سے بھیج رہا ہے۔یہی نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں سب سے زیادہ سیارچے خلا میں بھیجنے کاورلڈ ریکارڈ بھی قائم کرچکا ہے۔بھارت نے مریخ کی طرف  بھی  منگل یان  نامی ایک راکٹ روانہ کیا تھا جو کامیابی کے ساتھ مریخ کے مدار میں داخل ہو چکا ہے اور مریخ کی فضا کا تحقیقاتی ڈیتا واپس زمین کو بھیج رہا ہے۔بھارت نے گزشتہ دنوں   چندرایان دوم نامی چاندگاڑی بھی  22 جولائی  کوکامیابی سے  لانچ  کردی  جو 7 ستمبر2019کو چاند پر اترے گی۔

پاکستان میں  عین اسی دن 7 ستمبر کے تاریخی فیصلہ کا جشنِ کامیابی منایاجائے گا جس کے ذریعہ  ڈاکٹر عبدالسلام کوپاکستان کی قانون سازاسمبلی نے ایک  منتخب عوامی وزیراعظم  کی سربراہی میں غیر مسلم  قراردے دیا تھا۔  اب بھی پاکستان کے اسمبلی فلور پرممبر اسمبلی  گھنٹوں لمبی تقریروں  میں اسی عبدالسلام  کوغدار پاکستان اورانڈیا  واسرائیل  کا ایجنٹ قراردیتے اورسپیکراسمبلی سمیت پورے ہال سے  توصیفی ڈیسک بجواتے  ہیں۔

اور میں   بحیثیت ایک پاکستانی خود سے  اور قارئین سے پوچھتا ہوں کہ دس میں کی خلا وچوں کھٹیا؟۔

آج  فضائی اور خلائی  میدان کی دوڑ میں  رینگنے والابھارتی کھچوا جیت چکا ہے اور پاکستانی خرگوش محو خواب ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی خلائی ادارہ کا رواں مالی سال کا بجٹ تقریباً 290ارب پاکستانی روپے ہے جبکہ پاکستانی سپارکو کا بجٹ کوئی 6 ارب روپےہے۔

پاکستانی خرگوش نہ صرف محو خواب ہے بلکہ نیند میں بولنے کی عادت  میں بھی مبتلا ہے۔

چنانچہ  پاکستان کے وزیر برائے سائینس  جناب فواد چوہدری صاحب نے  ،جنہیں بقول شخصے سزا کے طور پر  یہ منصب سونپا گیا ہے ،وزیر بنتے ہی   یہ انکشاف فرمایا کہ دنیا کی سب سے طاقتوردوربین  ہبلسپارکو  نے خلا میں بھیجی تھی۔ دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی لیکن جناب نے اس کی تصحیح  میں کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں فرمایا،شاید سمجھتے ہوں کہ اس طریق سے انہیں اس وزارت کے لئے نااہل قراردے دیا جائے گالیکن لگتا ہے ایسا بیان دینے سے عمران خان  کو یقین ہوگیا کہ ان کا تقرر بالکل درست  کیا گیاہے۔ویسے بھی ہر عمدہ چیز مومن کی میراث سمجھی جاتی ہے،اور ہبل اس میں شامل ہے۔

لیکن یہ بھی  ممکن  ہے  کہ بیچارے چوہدری صاحب کے اعصاب پر دوربینیں بری طرح  سوارہو چکی ہوں۔خاص طورپر رویت ہلال کمیٹی والی دوربینیں۔جس کے ممبر ان   روئیت ہلال  کی پیش خبری کے لئے جدید ٹیکنالوجی  کا استعمال مکروہ سمجھتے ہیں لیکن   کثیر المنازل پلازہ کی چھت پہ  بذریعہ  لفٹ چڑھنا اور عینک  لگاکرطاقتوردوربین سے روئیت  ہلال  کی  سعی ِمبارکہ  کو حلال قرار دیتے ہیں۔چوہدری صاحب موصوف ان پیشہ ور مولویوں کے  صرف چاند دیکھنے کے  معاوضہ کے طورپر سالانہ  لاکھوں  روپے  کھاجانے پر بھی  سوتے میں بڑبڑاتے پائے گئے تھے۔ 

چوہدری صاحب کا بس چلے تو ہبل   نامی دوربین زمین پہ منگوا کر پاکستانی رویت ہلال کمیٹی  کے حوالے کردیں تاکہ اس کے ذریعہ  مفتی منیب الرحمٰن صاحب مفتی پوپلزئی صاحب   کی طرح عید سے دو روز قبل ہی چاند کو دیکھ  لیا کریں۔گو پوپلزئی گروپ   کو گزشتہ ستر برس سے بغیر دوربین کے ہی دو دن پہلے نیا چاند نظرآجاتاہے۔

اب توخیبر پختونخوا کی  انصافی حکومت نے بھی مفتی منیب  گروپ کی بجائے پوپلزئی  گروپ  کی اطاعت  کوترجیح دی اور صوبہ میں ایک ہی دن عید کروادی۔اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وزیر سائینس  جناب فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ انصافی حکومت   پہلی بار دو کی بجائے ایک ہی عیدکروائے گی۔افسوس کہ ان کا یہ بیان خیبر پختونخوا کے انصافی وزیر اعلیٰ کوتو یاد رہا اور خود چوہدری صاحب کو بھول گیا۔

قارئین کرام یہاں تک مضمون لکھا تھا کہ فواد چوہدری صاحب کا ایک اور بیان اخبارات  میں پڑھنے کو ملا۔جس کے مطابق پاکستان اپنا پہلا خلابازسنہ 2025  تک خلا میں بھیجے گا۔یہ بیان انہوں نے  بھارتی راکٹ چندرایان دوم  کی لانچنگ کے تین دن بعد لانچ فرمایا۔ان کے اس بیان کے بعدمبینہ طورپر  بی بی سی کے نمائیندہ نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ اس بارہ میں کچھ تفصیلات  بھی معلوم کی جاسکیں لیکن ناکامی کا منہ دیکھا۔سپارکو کی ویب سائٹ پر بھی ا س کےبارہ میں کوئی تفصیلات موجود نہیں۔نمائیندہ   بی بی سی کو سمجھ لینا چاہیئے  کہ اب ہم نے اپنا کوئی راز اسرائیل کو نہیں دینا۔مشکل سے تو ڈاکٹر عبدالسلام سے جان چھوٹی  ہے۔ہمیں ایک اور ڈاکٹر عبدالسلام نہیں چاہیئے۔ہمیں مزید ریٹائرڈ کیپٹن صفدر اعوان بھی نہیں چاہئے ،کیونکہ ایک ہی کافی ہے۔

وزیر صاحب نے البتہ یہ اشارہ دیا ہے کہ 50 افراد شارٹ لسٹ ہونگے،جن میں سے 25 منتخب ہونگے ان میں سے ایک کو 2022 میں خلا میں بھیجا جائے گا ۔ہوسکتا ہے روئیت ہلال کمیٹی کے پچاس افرادمراد ہوں ،نصف جن کے پچیس ہوتے ہیں  جن کا ایک بٹا پچیس سنہ پچیس میں خلا میں روانہ کردیا جائے گا۔پروگرام نہ ہوا، 25 کا پہاڑا ہوا۔

 وزیرصاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس بیچارے اکلوتے   خلاباز کوواپس پاکستان میں بھی آنے دیا جائے گایا نہیں۔یہ نہ ہوکہ وہ ساری عمر خلا میں گھومتا یہی احتجاج کرتا رہ جائے کہ دس میں خلا وچوں  کھٹیا۔

لیکن ایسے شخص کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس ملکِ خداداد میں  خلائی مخلوق  کی بہتات ہے۔ایک آدھ کی کمی سے کوئی  فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ  جدید دنیابجائے چاند ستاروں پہ اپنے راکٹ  بھجوانے کے انہیں  پاک سرزمین پہ اتارے،اصل مقصد یہی ہے نا کہ کسی طریق سے پتہ لگایا جائے کہ  کہیں کوئی خلائی مخلوق بھی موجود ہے یا نہیں؟۔

مضمون کومزید  طول دینے میں کوئی حرج نہیں،(رات ابھی باقی ہے ،بات ابھی باقی ہے)سائنیس اینڈ ٹیکنالوجی کی بات چل ہی رہی ہے تو یہ  ذکرکرنا بھی نامناسب نہ ہوگا کہ ہمارے نئے پاکستان کے بانی  ایک یونیورسٹی  کے افتتاح   کے موقعہ پریہ اعلان بھی فرما چکے ہیں کہ  ان کی حکومت روحانیت کو سپر سائینس  بنائے گی۔ہمیشہ کی طرح انہوں نے اپنے اس  پروگرام کے مزید راز بھی ظاہر نہیں کئے(غالباً  اسرائیل کے ڈر سے) لیکن لگتا یہی ہے کہ اس  روحانی سپر سائینس کے نتیجہ میں  نئے پاکستان  میں بہت سے  روحانی سائینسدان  تیار ہونگے  جوڈگری یافتہ    صاحبِ کرامت بزرگ ہو نگے۔

سوال پیدا ہوتا ہے  کہ ان ڈگری یافتہ روحانی سائینسدانوں کوکیا  سرکاری طور پر صالح، شہید،ولی،قطب،غوث  وغیرہ  کے عہدوں پر فائض کیا جائے گا (ورنہ بتائیں روحانیت کے مدارج  اور کون کون سے ہیں اور روحانی سائینس   کی  سائینسی اورشرعی تعریف کیا ہے؟) ۔ نئے پاکستان کے یہ روحانی سائینسدان  بغیر راکٹ  ہی ہفت افلاک کی سیرکرلیا کریں گے اور مؤکلین کے ذریعہ ہرطرح کی خلائی مخلوق  کو حاضرکرکے آپ کے  قدموں تلے  لا ڈالیں گے اور وہ آپ کے پاؤں دباتے ہوئے دل ہی دل میں فریاد کیا کریں گے کہ دس میں کی خلا وچوں کھٹیا۔

♦ 

 

Comments are closed.