مولانا فضل الرحمن کی سیاست

لیاقت علی

جمعیت علمائے اسلام کے تاحیات امیر مولانا فضل الرحمان پاکستان کی مذہبی اور مین سٹریم سیاست کا اہم نام ہیں۔ وہ اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی ایوان اقتدار کے قرب و جوار میں رہتے ہیں۔ حزب اقتدار ہو یا پھر حزب اختلاف سب کو ان کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے لیکن مولانا کی خوبی اور کاریگری یہ ہے کہ وہ حکومت کی مدد کریں یا اپوزیشن کی حمایت دونوں صورتوں میں اپنے حصے سے کچھ زیادہ گوشت ضروراتارلیتے ہیں۔

مولانا بہت ناپ تول کر بات کرتے ہیں اور عام سیاست دانوں کی طرح ایسی باتوں سے گریز کرتے ہیں جن کی بعد ازاں انھیں تردید کرنا پڑے۔ مولانا گذشتہ تین دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت اقتدار میں ہیں اور پاکستان کی سیاست کے پیچ و خم سے بخوبی واقف ہیں اور انھیں پتہ ہے کہ کس وقت کیا کہنا ہے اور کیا کہنے سے گریز کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمان سابق آئی۔ایس۔آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کے لئے ان کے بیٹے کے گھر گئےتو وہاں موجود اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ّمضبوط پاکستان کے لئے اسلامی نظام ناگزیر ہےٗ۔

پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے کی تحریک قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ یوپی سے آئے کچھ بقراطوں نے تو قائداعظم کو اپنی بادشاہت کا اعلان کرنے کا مشور دے ڈالا تھا۔مجوزہّ اسلامی نظامٗ کی شکل و صورت کیا ہو اور اس کو پاکستان مین نافذ کیسے کیا جائے اس پر آج تک کوئی ٹھوس اور قابل عمل روڈ میپ سامنے نہیں آسکا۔ ہر مذہبی سیاسی جماعت کا اپنا ّ اسلامی نظامٗ ہے۔

پھر مختلف فرقوں میں جو باہم تفریق ہے وہ بھی کسی مفتفقہ اور مشترکہ ؔ اسلامی نظامٌ کی خدو خال واضح کرنے کی رکاوٹ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جنرل ضیا نے اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں مارشل لا کے ذریعے ّ اسلامی نظامٗ نافذکرنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن وہ چند سزاوں سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔ جسے ان کے عہد مارشل لا میں ّاسلامی نظامٗ کہا جاتا تھا آج اسے بد ترین آمریت قرادیا جاتا ہے۔

بہتر سالوں سے پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست جاری ہے۔ اس سیاست کی بدولت پاکستان میں فرقہ پرستی، انتہاپسندی اورمذہب کے نام پر قتل و غارت گری میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک فرقہ کے پیروکار دوسرے فرقے کے ماننے والوں کو کافر اور زندیق قراردیتے اور انھیں واجب القتل سمجھتے ہیں۔ ہزاروں مسلمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں۔ منافقت اور لا قانونیت کو مذہب کے نام پر جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ حکمران مذہب کے نام پر عوام کے جمہوری۔ معاشی اور سماجی حقوق سلب کرتے چلے آئے ہیں۔

خود مولانا کی پارٹی ایک سے زائد مرتبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کولیشن پارٹنر رہ چکی ہے۔ خیبر پختون خواہ میں تو ان کی پارٹی ڈرائیونگ سیٹ پر تھی۔ بطور حکمران پارٹی انھوں نے صوبائی حدود میں رہتے ہوئے ایسے کون کارہائے نمایاں سر انجمام دیئے تھے جنھیں وہ ّاسلامی نظامٗ کہہ سکتے ہیں اور جن پر وہ فخر کرسکتے ہیں۔ دراصل ّاسلامی نظامٗ کا نعرہ عوام کو مذہب کے نام پر بے وقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنے کی پرانی ٹکنیک ہے۔

مولوی حضرات اور ان کی ہمنوا کلین شیو اشرافیہ پاکستان کے عوام پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے ّاسلامی نظامٗ، ّنظریہ پاکستانٗ اور ّخلافت کا قیامٗ جیسے نعرے لگاتی ہےتاکہ عوام درپیش معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئےجد وجہد کرتے ہوئے انھیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر نہ کردیں۔

آج کی ریاست جدید ریاست ہے یہ قرون وسطی کی ریاست نہیں ہے۔ آج ایک ملک اور ریاست میں ایک سے زائد مذاہب، قومیں اور ثقافتیں باہم مل جل کر رہ سکتی اور پھل پھول سکتی ہیں۔ آج ریاست اپنے تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی ریاست اقوام عالم میں باعزت مقام حاصل نہیں کرسکتی ۔

آج ریاست سب کی اور مذہب اپنا اپنا کے اصول کے تحت پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا ہوگا تاکہ پاکستان کے تمام شہری بلا لحاظ مذہب اس کی ترقی،خوشحالی اور سالمیت کے لئے یکسوئی سے کام کریں۔ مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق ختم کرنا ہوگی اور شہریت کی بنیاد پرمساوی حقوق دینا ہوں گے۔پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کی راہ سیکولرازم سے ہی ہوکر گذرتی ہے۔

Comments are closed.