فضل الرحمان کا طبل جنگ، زرداری اور شہباز کا امتحان

ارشد بٹ

پشاور اور کوئٹہ میں طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا اس وقت ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہو چکا ہے۔ گذشتہ روز کوئٹہ میں ایک بہت بڑی ریلی سے خظاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان اگست کے مہینے میں مستعفیٰ ہو جائیں، ورنہ اکتوبر میں اسلام آباد کی جانب مارچ کیا جاے گا۔ انہوں نے کہا جعلی حکومت کے خلاف طبل جنگ بج چکا ہے اور وہ حکومت کا خاتمہ کر کے گھروں کو لوٹیں گئے۔

متحدہ اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ مولانا جیسے منجھے ہوئے ، زیرک اور حالات کا رخ پہچاننے والے سیاستدان نے حکومت گرانے کا اعلان سوچے سمجھے بغیر نہیں کیا ہو گا۔ مولانا نے سیاست میں کچی گولیاں نہیں کھیلیں اور نہ ہی وہ تپتی زمین پر پاوں رکھتے ہیں۔ مولانا بلا مقصد بڑے بڑے دعوے نہیں کرتے اور محض اپنی جماعت اور عوام پر بھروسہ کر کے حکومت کے خاتمے کی تحریک چلانے کا اعلان کیسے کر سکتے ہیں۔

مولانا مقتدرہ قوتوں سے حکومت کی پشت پناہی کرنے پر شکوہ تو کرتے ہیں۔ مگر ان قوتوں سے کسی قسم کا ٹکراو مول لینے کو تیار نہیں۔ شائد مولانا کی حکمت عملی ہے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کی قوت سے سیاسی دباو بڑھا کر مقتدرہ قوتوں کو غیر جانبدار کرنے میں کامیاب ہو جا ئیں گے۔ حکومتی نا اہلی، ناقص اقتصادی منصوبہ بندی، کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بد حالی کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوام میں پائی جانے والی بے چینی، تاجروں کی ملک گیر شٹرڈاون ہڑتال، جھوٹے صنعتکاروں کا حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد، آئے روز وکلا کے احتجاج اور اس پر متحدہ اپوزیشن کی حکومت گراو تحریک، مقتدرہ قوتوں کی حالیہ سوچ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

مولانا نے عمران خان حکومت کو ایک بڑا چیلنج تو کر دیا، ساتھ ہی انہوں نے آصف زرداری اور شہباز شریف کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ زرداری اور شہباز کی مفاہمت کے نام پر مصلحت پسندی اور موقعہ پرستی کی سیاست مولانا کے عزائم کو ناکامی سے دوچار کرتی ہے، یا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مولانا کے اعلان کو متحدہ اپوزیشن کا بیانیہ بنانے پر رضامند ہوتے ہیں۔

جب تک پنجاب اور خیبر پختون خواہ، اپوزیشن تحریک کا مرکز نہیں بنتے حکومت کو گرانا نا ممکن ھو گا۔ جے یو آئی اور اے این پی خیبر پختون خواہ میں حکومت کے خلاف میدان سجانے کو تیار بیٹھی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں متحد ہو کر صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکومت مخالف تحریک چلانے کی بھر پور صلاحیت ر کھتی ہیں۔ پی پی پی، ن لیگ اور متحدہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی شمولیت سے خیبر پختون خواہ میں حکومت مخالف تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔

جب تک پنجاب میں مسلم لیگ ن، شہباز شریف کی مصلحت پسندی سے نجات حاصل کر کے تحریک چلانے کا عہد نہیں کرتی، پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ دیوانے کا خواب رہے گا۔ ان حالات میں مریم نواز کو مسلم لیگ کی روائیتی موقعہ پرستانہ سیاست سے چھٹکارا پا کر تاریخی کردار ادا کرنے کا سنہری موقعہ مل سکتا ہے۔ بلاول بھٹو بھی حکومت مخالف تحریک میں موثر کردار ادا کر کے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔  

بعض سیاسی مبصروں کے نزدیک حکومت گرانے کی تحریک کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سیاسی خلفشار سے جمہوری نظام کو سنجیدہ خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ اسے محض یک طرفہ تجزیہ کہا جا سکتا ہے جو موجودہ حکومت کے فاشسٹ، غیر جمہوری اور عوام دشمن طرز حکمرانی کو جواز فراہم کرتا ہے۔ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں جمہوری قوتوں کا وسیع تر اتحاد نیازی حکومت کی فاشسٹ پالیسیوں کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔ ایسا اتحاد غیر جمہوری قوتوں کے راستے کی دیوار بن سکتا ہے کیونکہ جمہوری قوتوں کی تقسیم اور بعض سیاسی عناصر کی موقعہ پرستی طالع آزمائی کو زرخیز زمین فراہم کرتی ہے۔  

         ♥

Comments are closed.