سِدھوؔاِزم


طارق احمدمرزا

سابق کرکٹراوربھارتی پنجاب کے (اب)سابق وزیربرائے سیاحت وثقافت جناب نوجوت سنگھ سدھو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔کپیل شرماکے ٹی وی شوکے روح رواں کے طورپر بھارت اور بیرون ملک توجانے پہچانے ہی جاتے تھے ،لیکن پاکستان میں ان کو اس وقت شہرت عام ملی جب وہ اپنے کرکٹردوست عمران خان کی بطوروزیراعظم تقریب حلف برادری میں شرکت کے لئے پاکستان تشریف لائے اورآرمی چیف جناب قمرجاوید باجوہ کے ساتھ بے ساختہ کچھ اس ادا کے ساتھ گلے لگے کہ یہ گلے لگنا ان کے گلے ہی پڑ گیا۔

چنانچہ وطن واپسی پرنہ صرف بھارتی میڈیا نے ان کو اس حرکت پرآڑے ہاتھوںلیابلکہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب امریندرسنگھ کی ناراضگی بھی مول لی۔پہلے تومتعددمشاورتی کمیٹیوں میںانہیں حاضری سے مثتثنیٰ قراردے دیا گیا،جن کے وہ ممبر تھے۔ اور پھرجون 2019 میں ان سے لوکل گورنمنٹ،ٹورزم اینڈ کلچرکے قلمدان بھی واپس لے لئے گئے۔اس کے بدلے انہیں پاور اینڈرینیوبل انرجی کی وزار ت سونپے جانے کا اعلان کیا گیا لیکن سدھوصاحب نے احتجاجاً کابینہ سے ہی استعفیٰ دے دیا۔

یہ استعفیٰ بھی انہوں نے بجائے وزیراعلیٰ امریندرسنگھ کو بھجوانے کے،کانگریس پارٹی کے چیف راہول گاندھی کو بھجوایاجس پر امریندر سنگھ مزید سیخ پا ہوگئے۔

میڈیاکے استفسارپرپچپن سالہ نوجوت سنگھ(المعروف شیری جی) نے کہا کہ میںنے اپنا ستعفیٰ اپنے کیپٹن کو بھجوایا ہے جو امریندر سنگھ کے بھی کیپٹن ہیں۔ان کا یہ جملہ بھی ان کے اس قسم کے بہت سارے دلچسپ اور معنی خیز اقوال کی طرح فوراً ہی ’’وائرل‘‘ہوگیا،جن کو ان کے چاہنے والے ایک مجموعہ میں شامل کرتے رہتے ہیں اورجو عرف عام میں ’’سدھو ازم ‘‘ کہلاتا ہے۔

سدھو ازم کیاہے؟۔یہ نوجوت سنگھ سدھو کے افکارو نظریات کے علاوہ زندگی کی کچھ ایسی آفاقی سچائیوںاور حقیقتوں پر مشتمل ہے جنہیں سدھو جی کے بے ساختہ پن اور سیدھے سادھے لیکن اچھوتے الفاظ کے جامہ اور منفردانداز نے دل ودماغ میں چبھ جانے اور چبھنے کے بعدمزید چبھن پیداکرتے چلے جانے کی ’’نشتریت‘‘عطا کردی ہے۔

سدھو ازم میں اُن کے ’’اقوالِ زریں‘‘کے علاوہ ان کے بعض ایسے جملے بھی شامل ہیں جو لائیو کمنٹریوں کے برجستہ حصہ تھے لیکن میچ اورکمنٹری کے ختم ہوجانے کے بعد ابھی تک لائیوچلے آرہے ہیں۔

ذیل میں سدھو ازم کا نچوڑان سے منسوب چند اقوال کے ترجمہ کی صورت میں پیش کیاجاتاہے۔پڑھیئے اورسردھنیئے!۔

۔’’گائے کے جسم سے نکلنے والی ہر چیز دودھ نہیں ہوتی‘‘۔

۔’’وکٹیں بیویوں کی طرح ہوتی ہیں،کوئی پتہ نہیں کب الٹ کرپڑیں‘‘۔

۔یہ بال تو اتنی اونچی گئی کہ واپسی پر ایک ائرہوسٹس کو ساتھ لا سکتی تھی !‘‘۔

۔’’خواتین کب خوش ہوتی ہیں؟۔ اپنے سے موٹی خاتون کودیکھ کر!‘‘۔

۔’’میں اعدادوشمارپہ ایسا ہی انحصارکرتاہوں جیسا ایک شرابی کھمبے پر،روشنی کے لئے نہیں،سہارے کے لئے !‘‘۔

۔’’تجربہ ایک ایسی کنگھی ہے جو قدرت کی طرف سے انسان کو اس وقت عطا ہوتی ہے جب وہ گنجا ہوچکا ہوتا ہے‘‘۔

۔’’چڑیل کی دعوت پر جائیں تو لمبے سائز کی چمچ ساتھ رکھیں‘‘۔

۔’’ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو آپ کو قمیص کی آفرکرے اور خود برہنہ ہو‘‘۔

۔’’بیلٹ کو کس کرباندھیں،ورنہ پتلون گرجائے گی !‘‘۔

۔’’پرسکون پانیوں پہ تو کوئی بھی کشتی چلا سکتا ہے‘‘۔

۔’’کامیابی کی سڑک پرایک دو بار ٹائرضرورپنکچرہو تے ہیں‘‘۔

۔’’اپنی رُوڑی پر تو مرغا بھی بانگ دے لیتاہے‘‘۔

۔’’ انقلابی سوچ وہ ہوتی ہے جس نے آستینیں چڑھا رکھی ہوں‘‘۔

۔’’ تھرڈامپائرکو تبدیل کرنا اتنا ہی ضروری ہوتاہے جتنا کہ بچے کا پوتڑابدلنا‘‘۔

۔’’سرنگ میں سے روشنی نظرآ رہی ہے ! ۔ ایسی ٹرین کی روشنی جو تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے ‘‘۔

Comments are closed.