کشمیر سے متعلق بھارتی فیصلہ: کس ملک کا ردعمل کیا تھا؟

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے متنازعہ بھارتی فیصلے کے چوبیس گھنٹے بعد اب تک عالمی ردِ عمل کیا رہا اور کس ملک نے کیا کہا۔

جرمن ردِ عمل

برلن میں جرمن دفتر خارجہ کی ترجمان ماریا آیڈیبار نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔

دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان کا کہنا تھا، ہم کشیدہ حالات اور جموں و کشمیر میں سامنے آنے والی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے بھارتی حکومت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے کے بعد علاقے کی صورت حال کے تناظر میں (اپنے شہریوں کے لیے) سفر اور سکیورٹی سے متعلق ہدایات جاری کی ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارتی حکومت متاثرہ ریاست کے لیے آئندہ جو بھی منصوبہ رکھتی ہے، اس میں علاقے کے لوگوں کے آئینی اور شہری حقوق کو پیش نظر رکھے۔ ہم بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں وہ اپنے آئندہ لائحہ عمل، یا وہ علاقے کے لیے اپناجو منصوبہ رکھتی ہے، کے بارے میں متاثرہ عوام سے مذاکرات کرے اور انہیں آگاہ کریں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صورت حال پر سکون رہے گی، مذاکرات کیے جائیں گے اور حالات مزید کشیدہ نہیں ہوں گے‘‘۔

اقوام متحدہ نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ عالمی ادارے کے فوجی مبصرین کے گروپ نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب عسکری سرگرمیوں میں اضافے کی اطلاع دی ہے۔

امریکی ردِ عمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات میں کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیش کش کی تھی، جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔ گزشتہ روز کے واقعات کے بعد امریکا نے بھی پاکستان اور بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر امن قائم رکھیں۔ واشنگٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان مورگن اوٹاگس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال کے بارے میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا، ہمیں گرفتاریوں کی اطلاعات پر تشویش ہے اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے‘‘۔

ترک صدر ایردوآن پاکستان کی حمایت میں

ترک صدارتی دفتر کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر سے متعلق بھارتی اعلان کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے انہیں تازہ صورت حال اور پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا۔

ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق صدر ایردوآن نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

بھارتی اعلان سے قبل او آئی سی کا اظہار تشویش

اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی نے اتوار چار اگست کے روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور وہاں مزید بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تنازعہ کشمیر کو پر امن طریقے اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

تاہم بھارت کی جانب سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے فوری بعد اس تنظیم نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ اسلامی تعاون کی تنظیم کے جموں و کشمیر سے متعلق رابطہ گروپ کا اجلاس آج چھ اگست کے روز جدہ میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شرکت کریں گے۔

سعودی عرب اور ایران خاموش‘

سعودی عرب اور ایران کی خارجہ امور کی وزارتوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کشمیر کی تازہ صورت حال کے حوالے سے کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امریکا اور ایران کے کشیدہ تعلقات کے حوالے سے بیانات موجود ہیں جب کہ سعودی دفتر خارجہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے گزشتہ روز مصر میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی گئی ہے۔

Dw

One Comment