کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔ ستر سالہ بیانیہ بالاخر اپنے انجام کو پہنچ گیا


شعیب عادل

پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کے تعلیمی نصاب، سرکاری دانشوروں اور میڈیا نے پاکستانیوں کی ذہن سازی اس طرح کردی ہے کہ بھارتکے زیرانتظام کشمیر کوپاکستان کا حصہ بنا دیا تھا جس پر بھارت نے اس پر قبضہ کر رکھا ہےاور فوجی کاروائی کے بغیر اس کا کوئی حل ممکن ہی نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان یا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس بیانیے کو پروان چڑھانے کے لیے وقتا فوقتا پاکستان کی جہادی تنظیمیں بھارتی کشمیر میں حملے کر دیتی تھیں ۔اس کے علاوہ عوام کا مورال بلند کرنے کے لیے حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر پورے ملک میں جلسے کرتے تھے اور اس بہانے جہاد کے لیے بھرتی بھی کر لیتےتھے۔

پاکستانی پریس میں وزیر اعظم مودی کو الزام دیا جاتا ہےکہ وہ انتہا پسند ہے اور جنگ چاہتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے 2013 میں پہلی دفعہ کامیاب ہونے کے بعد کہا تھاکہ وہ پاکستان سے دوستی چاہتے ہیں لیکن اگرپاکستان نے لائن آف کنٹرول پرایک گولہ فائر کیا تو ہم دس گولے فائر کریں گے۔ وزیراعظم مودی نے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ 25 دسمبر کو لاہور میں نواز شریف کی سالگرہ کی مبارکباد دینے لاہور آگئے جس پربھارتی اپوزیشن نے بھی مودی پر لعن طعن کی کہ آپ پاکستان کے آگے کیوں جھک رہے ہیں۔ لیکن پاک فوج اس کے حق میں نہیں تھی اس کا خیال تھا کشمیر طاقت کے ذریعے حاصل کیاجا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ نواز جب کشمیر کے حل کی بات کرتی تھیں تو ان کانقطہ نظر یہی ہوتا تھا کہ لائن آف کنٹرول کو سرحد مان کر دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہو، ویزا کی پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ دونوں اطرف کے لوگ آسانی سے آپس میں مل سکیں لیکن ایسا نہ کرنے دیا گیا ۔ جب بھی سیاسی حکومتوں، چاہے وہ بے نظیر بھٹو ہوں یا نواز شریف یا آصف زرداری کو موقع ملا وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے کافی قریب پہنچ جاتے تو پاکستان آرمی سیاسی حکومتوں کی ایسی کسی بھی کوشش کو جہادی تنظیموں کے حملوں کے ذریعے سبوتارژ کردیتی تھی۔

بھارت کی طرف سے کشمیر کا خاص سٹیٹس ختم کرنے کے بعد بھارتی کشمیر اب بھارت کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔پاکستان نے کشمیر کے باعزت حل کا موقع کھو دیا ہے۔اہم بات یہ ہے دنیا نے بھی بھارت کے اس ایکشن پر کوئی مخالفت نہیں کی الٹا پاکستان کو بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کا کہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے وہ ردعمل کیوں نہیں دیا جو ماضی میں دیا جاتا رہا ہے۔۔ یوم کشمیر پر ملک کے طول وعرض میں کشمیر کی آزادی کے مظاہرے کرنے والوں کو اب سانپ سونگھ گیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس اہم فیصلے پر حافظ سعید اور ان کے سرپرست خاموش ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ عالمی معاشی پابندیاں ہیں۔ پانچ اگست کو مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم کیا تو چھ اگست کے پاکستانی اخبارات میں یہ خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ۔ دی نیوز انٹرنیشنل کے فرنٹ پیچ پر آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ کا ایک بیان بھی شائع ہوا جس میں اس نے واضح کیا کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی بھی عسکری قدم اٹھایا گیاتو آئی ایم ایف کی امداد معطل ہو سکتی ہے اور دوسری بڑی وجہ ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار بھی ہے جس نے پاکستان کا نام ابھی گرے لسٹ میں رکھا ہواہے اور پاکستان کی دہشت گردی کے حوالے سے مسلسل نگرانی ہورہی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس نے دونوں ممالک کو کسی بھی عسکری کاروائی کے لیے باز رہنے کو کہا ہے۔

پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں ہوں یا بھارت کی وہ صرف اور صرف پوائینٹ سکورنگ کے لیے اپنی اپنی حکومتوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر پر بین کرنے کی بجائے لائن آف کنٹرول کو سرحد مان کر پاکستانی عوام کی ترقی وخوشحالی کی بات کریں۔ یہ نہ ہو کہ کل کو بھارت یہ دعویٰ کردے کہ آزاد کشمیر پر پاکستان کا قبضہ ہے جو اس نے 1948 میں قبائلی بھیج کر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت گلگت بلتستان کا محاذ بھی کھول لے۔

Comments are closed.