بیانیے کے منہ زور ریاستی گھوڑے اور عوامی آدرش

 طارق ضیا

کیا عوامی مقبولیت ماپنے کیلئے  کئے جانے والے  سروے یا پولز واقعی ہی رائے عامہ کی عکاسی  کا درست پیمانہ ہیں اور ان کی غیر جانب داری  پرکھنے کا کوئی اصول بھی دستیاب ہے ؟  کیا سروے  کا انعقاد کرنے والے ادارے خام ڈیٹا بھی جاری کرتے ہیں ؟  مثلا سروے کا   سمپل سائز کیا تھا،کن سوالوں کی بنیاد پر نتائج  استوار کئے گئے، اور یہ کہ  کن سماجی  طبقوں سے رائے  طلب کی گئی؟

 جتنے سوال ہونگے تطہیر شہادت بھی  اتنی ہی  صاحب ہو گی!

یہ سوال لائق  تحقیق  ہیں۔ کسی سروے کے نتائج  کی حقانیت جانچنے کیلئے  ان سوالوں  کا جواب تلاش کرنا کسی بھی عقل سلیم  رکھنے والے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔لیکن یہاں ان  پر بحث  مقصود نہیں ۔

 ایسے بوجھل اور خشک سوالوں کا بار ہم ماہرین  شماریات  اور  اہل دل کے سپرد کرنا اور  خود پتلی گلی سے  نکل  لینا ہی اپنے حق میں  زیادہ  محفوظ خیال کرتے ہیں۔

  یہاں سوال کچھ  اور ہے  اور وہ  یہ ہے کہ مقبولیت کا پیمانہ کن اصولوں کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے؟ذاتی پسند و ناپسنداز قسم دلبرانہ انداز گفت  و شنید، لباس  و چال  اور انداز نشت و برخاست وغیرہ وغیرہ ؛ یا پھر کسی معاملے میں سیاسی قیادت  کا طرز حکمرانی  اور اقدامات برائے  اصلاح ِنظام ریاست جیسے پہلووں کو مدنظر رکھا جاتا ہے؟

  پاکستان میں سیاسی قیادت  کی مقبولیت  کے  حالیہ سروے نتائج  اور اس کے ردعمل میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر  بڑی حد تک بچگانہ اچھل کود سے تو یہی لگتا ہے کہ  ایسے سروے کسی مثبت بحث  و مباحثہ کا راستہ ہر گز نہیں بنتے بلکہ پست سیاسی   خیالات کی بنیاد پر  سیاسی  تفریق (پولرائزیشنکو مزید دوام بخشتے ہیں اور حقیقی سوالوں کو مرکزی سیاسی منظر  نامے سے غائب کرنے کا  باعث بھی۔

 بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ  میں ، محمد بوٹا ،   چونکہ  بطور سیاسی رہنما   اور شخصی طور پر  سب سے زیادہ مقبول ہوں لہٰذا بجا طور پر  قوم کا سر ہمالیہ سے بھی اونچا  اور فخر بسیط کائنات  سے بھی  وسیع ہو جانا چاہئیے ؟جواب دہی تو یہ ہونی چاہیئے کہ مجھے  جس منصب ذمہ داری متمکن  کیا گیا ،   وہ کام کس منزل تک پہنچا اور  اب کس دوراہے پر  کھڑا  سر نہاں ہے؟

 پاکستان میں صحافتی قدغنوں  کی بازگشت عالمی سطح پر تو  ضرور سنائی دیتی ہے لیکن  اس معاملے پر سیاسی قیادت کے کردار اوراس کے سدباب   کا کوئی  پہلو کبھی کسی سروے کا موضوع انتخاب نہیں بنتا۔ معاشی اہداف کے حصول  کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی مقبولیت پر عوامی رائے  ماپنے کی کوئی جگہ نہیں۔ کیونکہ  جان لیجئے اور اہتمام حجت کے طور پر کہے دیتے ہیں  کہ شخصی  طور پر مقبول عام ہونا ہی سارے مسائل کا شافعی علاج  ہے ۔ آپ کو اس کرشماتی کردار  پر فخر ہونا چاہئے۔ ہم سب بہ لحاظ ملی و قومی خدمات کے صلے میں   ایک صفحے پر اڑی ترچھی  لیکروں کی صورت میں جگمگا رہے ہیں۔ اور یہ کہ کور چشمی کا کوئی علاج نہیں!

 وہ مسائل جن کا  جنتا  کی رہتی سہتی سانس لیتی اور سسکتی  زندگی سے براہ راست تعلق ہے  ان پر گفتگو شائد اتنی اچھل کود کے ساتھ نہیں ہوتی جتنی  مقبولیت جانچنے والے پولز  کے نتائج پر کی جاتی ہے۔ بھئی مان لیا کہ  آپ مقبول عام ٹھہرے  لیکن شام کو  میرے گھر کا چولہا جلے گا بھی یا نہیں  جیسے تفکرات  کی  باز گشت قومی بیانیئے میں  کیوں سنائی  نہیں دیتی ؟

 بالخصوص عالمی مسائل اتنے زیادہ درپیش  ہیں کہ اپنا سایہ دکھتا نہیں اور سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔  اپنے پچھواڑے کا تعفن  خوشبوئے گُل  اور چلے ہیں آرائش گلستانِ جہاں کرنے۔بیانیہ یہ ہے کہ ریاستی ترجیحات آپ کی ذاتی زندگی کے مسائل سے کہیں زیادہ  افضل ہیں۔  ریاست اور فرد واحد کا تعلق  الٹایا  جا  چکا ہے۔ وہ گانا تو آپ  نے  سنا ہوگا: آج میں اوپر، آسماں نیچے!

  اور چونکہ ہم ان سروے  اور پولز کی بنیاد پر سب سے زیادہ عوامی مقبولیت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں  لہذا  ہمیں  پوجنا آپ کا فرض ٹھہرا ۔ رہی بات آپ کے ذاتی مسائل کی،  تو آپ اپنی  ذاتیات کو قومی  ترجیحات سے بلند کرنے  کی گھٹیا سوچ  کا  جلد از جلد سد باب  کرلیجئے۔ اس  سے  پہلے  کہ بیانیے کے منہہ زور  ریاستی گھوڑوں کی سموں تلے آپ کے آدرش روند دئیے جائیں۔

Comments are closed.