ہم ایک صدی سے ایک ہی جگہ پر کھڑے ہیں


نذیر لغاری

ستمبر 1919ء میں لکھنؤ میں خلافت کمیٹی قائم ہوئی اور برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کیلئے اپنی آزادی کی جدوجہد کو موقوف کردیا۔ اس سے تین سال پہلے 1916ء میں شریفِ مکہ خلافت عثمانیہ سے عملاً بغاوت کر چکے تھے۔

اگست 1919ء میں برطانوی وزیر خارجہ ارل گرے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے (پہلی عالمی جنگ میں شکست دے کر) جرمنی کے ساتھ انصاف کیا اور اب ترکی(خلافتِ عثمانیہ)کے ساتھ بھی نہایت سختی کے ساتھ انصاف کریں گے۔

جنگ عظیم اول کے دوران میں برصغیر کے مسلمانوں کے طبی وفود ترکی میں زخمیوں کو طبی امداد دے رہے تھے۔اس دوران ہمارے بیس ہزار جانباز ترکی کی محبت میں ہندوستان کو دارلحرب قرار دے کر افغانستان ہجرت کرگئے تھے، انہی دنوں لاڑکانہ سے سندھی مہاجروں کی ایک ریل گاڑی بھر کرجان محمد جونیجو بھی افغانستان لے گئے تھے مگر غازی امان اللہ نے انہیں پناہ دی نہ سپاہ دی۔

اس پر ان میں سے کچھ مہاجرین مجاہدین بن کر ترکی چلے گئے اور بہت سے سفر کی سختیوں، بھوک اور پیاس سے مرکھپ گئے۔ جزیرہ نما عرب شریف مکہ اور انکے بیٹوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک بیٹے کو شام، دوسرے کو اردن اور تیسرے کو عراق کا بادشاہ بنادیا گیا اور شریف مکہ حجاز خود خلیفہ بن بیٹھا مگر آل سعود کےزور پکڑنے پرحجاز اپنے بڑے بیٹے کے حوالے کردیا۔ شریف مکہ کو خلافت عثمانیہ کے خاتمے کیلئے برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی اور ہم برطانیہ سے خلافت کی بحالی کے مطالبات کررہے تھے۔

آج ورلڈ آرڈر برطانیہ کی بجائے امریکہ کے پاس ہے۔ آج ایک کروڑ کشمیری زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شریف مکہ کی جانشین سلطنتیں محض مودی کے کشمیریوں کے خلاف بھیانک مظالم کی حمایت کے اظہار کیلئے اسے القابات و خطابات و انعامات سے نواز رہی ہیں۔

ہمیں جمعہ کے جمعہ ہفتہ وار آدھے گھنٹے کے احتجاج کے دھندےپر لگا دیا گیا، ہم کولہو کے بیل ہیں، ایک صدی سے دس فٹ مدار کے ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں، ہم امت کے دردِ زہ میں مبتلا ہیں، ہم سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بچوں سمیت دوسروں کی آگ میں کود جاتے ہیں۔اپنے آپ کو، اپنے طرزِ حیات کو، اپنے بچوں کے مستقبل کو، اپنی آنے والی نسلوں کو داؤ پر لگادیتے ہیں اور اسے تزویراتی گہرائی کانام دیتے ہیں۔ ہم کرشن چندر کے افسانے کفن چور کا مرکزی کردار ہیں۔ امریکی جج نے ہمارے بارے میں کہا تھا کہ ہم اپنے مفاد کیلئے اپنی ماں کا سودا بھی کر دیتے ہیں۔ 

 

One Comment