آئی ایس آئی ۔ سیاسی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ

ترجمہ و تلخیص لیاقت علی

چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کی اچانک موت کے بعد جنرل وحید کاکڑ کو نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا تھا۔ صدر غلام اسحاق کی طرف سے جنرل وحید کاکڑ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری اسی طرح کا شعبدہ تھا جس طرح کاجادوگرا پنی ٹوپی سے خرگوش برآمد کر کے دکھاتا ہے۔سنیارٹی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر جنرل کاکڑ چیف آف آرمی سٹاف تقرری کے وقت کور کمانڈر کوئٹہ ا ور جلد ہی ہونے والی ریٹائرمنٹ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

جنرل کاکڑ کی بطور چیف آف آرمی تقرری نہ صر ف سیاسی اور ریاستی حلقوں بلکہ خود جنرل کاکڑ کے لیے بھی حیرانی کا باعث تھی بالخصوص اس صورت حال میں جب کہ نہ صرف ان سے سنیئر جرلز میدان میں موجود تھے بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو اس عہدے پر مقرر ہونے کے حوالے سے بہت پر امید بھی تھے۔تاہم صدر اسحاق بہت خاموشی،صبر اور تحمل سے اپنے پتے کھیلنے پریقین رکھتے تھے۔ جنرل کاکڑ کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرکے انھوں نے بشمول وزیر اعظم نواز شریف سب کو حیران کردیا تھا۔

نئے مقرر ہونے والے آرمی چیف جنرل وحید کا تعلق کاکڑ قبیلے سے تھا۔ یہ پختون قبیلہ بلوچستان میں ژوب کے گرو نواح میں صدیوں سے آباد ہے۔ جنرل ایوب خان،جنرل یحییٰ خان کے بعد جنرل وحید کاکڑ تیسرے پختون جنرل تھے جو پاکستان کی فوج کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ جنرل وحید پشتو بولتے تھے اور یہ زبان پاکستان میں صوبہ سرحد، قبائلی پٹی اور جنوبی افغانستان میں بولی جاتی ہے۔جنرل کاکڑکسی قسم کی سیاسی وابستگی اور رحجان نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ خیالات کے اعتبار سے غیر سیاسی تھے اور ان کی یہی خصوصیت تھی جس کی بدولت صدر غلام اسحاق نے انھیں فوج کی سربراہی کے لئے منتخب کیا تھا۔

چیف آف آرمی سٹاف مقرر ہونے کے بعد جنرل ہیڈ کوارٹرز میں اپنی تقریر میں انھوں نے اپنے پیش رو جنرل آصف نواز کی خدمات کو سراہا اور ان کے حاصلات کی تعریف کرتے ہوئے اس امید اور یقین کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ تین سال ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔انھوں نے کہا کہ ان کے تقرر کو جنرل آصف نواز کی توسیع خیال کیا جائے اور وہ انہی کی طرح خود کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھیں گے۔ جنرل کاکڑ نے اپنے عہدے کو اپنے پیش رو کی توسیع قرار دیا تھا لیکن انھیں بہت جلد معلوم ہوگیا کہ سیاست سے دور رہنے کا جو عہد انھوں نے کیا تھا اسے نبھانا نا ممکن اگر نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ بہت جلد ملک میں یکے بعد ہونے والے واقعات نے جنرل وحید کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور سیاست سے دور رہنے کا جو عہد انھوں نے کیا تھا، ہوا میں تحلیل ہوگیا۔

سال1991 کا موسم خزاں آنے تک صدر اسحاق اور وزر اعظم کے درمیان سیاسی اختلافات زیادہ گہرے اور شدید ہوچکے تھے۔ ان اختلافات کے پش پشت ان دونوں کی زیادہ سے زیادہ اقتدار اپنے ذات میں مرتکز کرنے کی خواہش تھی۔جنرل ضیا کی طرف سے آئین میں متعارف کرائی جانے والی آٹھویں ترمیم کی تلوار ہر منتخب حکومت کے سر پر لٹکتی چلی آ رہی تھی اور یہی وہ آئینی ترمیم تھی جس کا سہارا لے کر ماضی میں جنرل ضیا وزیر اعطم جونیجو کی حکومت اور صدر اسحاق کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم بے نظیر کی منتخب حکومت کو برطرف کرچکے تھے۔

ہر منتخب وزیراعظم اس آئینی ترمیم کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا اور اس کو آئین سے خارج کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن صدر اسحاق اس آئینی ترمیم کے سب سے بڑے حمایتی اور اس کو آئین کا حصہ بنائے رکھنے پر مصر تھے۔ صدر اسحاق اور وزیر اعظم کے مابین صرف آٹھویں ترمیم ہی نہیں گورننس، ادارہ جاتی اختیارات اور مالیاتی اور اقتصادی امور کے حوالے سے ان دونوں کے مابین اختلافا ت پیدا ہوچکے تھے۔

صد ر اسحاق ایک ایسے جہاں دیدہ اور تجربہ کار سول سرونٹ تھے جو ہمہ وقت حکومتی اور ریاستی امور بارے متشکک رہتے تھے۔ وہ اپنے ارد گرد موجود سیاست دانوں کی نئی نسل کو نا تجربہ کار اور ریاستی امور سے نابلد خیال کرتے تھے اور اس کی بہترین مثال ان کے نزدیک بے نظیر بھٹو تھیں۔دسمبر 1992 میں 77سالہ صدر اسحاق کی خواہش تھی کہ انھیں ایک مزید مدت کے لئے صدر منتخب کیا جائے لیکن وزیراعظم نواز شریف ان کی یہ خواہش پوری کرنے سے انکار ی تھے کیونکہ وہ ایوان صدر میں اپنے کسی وفادار کو بٹھانا چاہتے تھے۔1993 کے وسط تک یہ فیصلہ کہ اگلا صدر کون ہو، کا فیصلہ زیر التوا رکھا گیا لیکن صدر اسحاق نے دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہونے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے کے کے لئے ممکنہ آپشنز پر کام جاری رکھا۔

سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز نے اپنے عہدے اور زندگی کے آخری مہینوں میں اپوزیشن لیڈر بے نظیر اور صدر غلام اسحاق کے مابین مصالحت اور بہتر تعلقات کار استوار کرنے کی بھرپور کوششیں کی تھیں۔ اُن کی کوششوں کا مقصد دراصل پیپلزپارٹی اور جونیجو لیگ کے باہمی اشتراک سے ایک قابل عمل اکثریت حاصل کرنا تھا۔ چنانچہ صدر غلام اسحاق نے اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش قدمی کا فیصلہ کیا اور18اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو کرپشن او ر اقربا پروری کے الزامات لگا کر برطرف کردیا۔

نواز شریف نے صدر کے برطرفی کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس نے 26 مئی کو صدارتی حکمنامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت اور کابینہ کو بحال کردیا۔صدر غلام اسحاق کے لئے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بہت بڑا دھچکا تھا لیکن انھوں نے شکست کے باوجود ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے اس فیصلے کے صرف تین دن بعد پہلے پنجاب میں اور ایک دن بعد صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کی صوبائی حکومتوں کو برطرف کردیا۔ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی خلفشار اور انتشار کی اس صورت حال میں سیاسی قوتوں کے مابین گفتگو اور مشاورت کے باوجود سیاسی صورت حال میں بہتری کے امکانات دن بدن مفقود ہوتے جارہے تھے۔ ملک کی اس پیچیدہ اور لاینحل سیاسی صورت حال نے ملک کی مقتدر ٹرائیکا کے تیسرے ستون۔فوج۔ کو خود بخود مداخلت کرنے پر مجبور کردیا۔

یکم جولائی کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل وحید کاکڑ پہلے ایوان صدر گئے اور اس کے بعد انھوں نے وزیر اعظم ہاوس میں نواز شریف سے ملاقات کی اور سیاسی بحران کے حل کے لئے فوج کا پلان پیش کیا۔ فوجی پلان کے مطابق سیاسی بحران کا حل نئے الیکشن میں مضمر تھا۔وزیر اعظم فوج کے اس پلان کے سامنے جھک گئے اور آخر کار وزارت عظمی سے مستعفی ہوگئے۔وہ سپریم کورٹ کو فوج کے خلاف متحرک کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔

نئے الیکشن کے لئے تین ماہ کی انتخابی مہم میں نواز شریف روز اول ہی سے مشکلات کا شکار تھے۔ان کا سب سے بڑا حریف صدر غلام اسحاق خان ایوان صدر میں موجود تھا۔نواز شریف کی سیاسی حریف بے نظیر بھٹو نے اعلان کیا کہ اگر وہ وزیر اعظم منتخب ہوگئیں تو وہ صدر اسحاق کے ساتھ مل کر کام کریں گی جب کہ نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ ’اقتدار کے بھوکے اس صدر کے خلاف آخری دم تک لڑائی جاری رکھیں گے‘۔

الیکشن مہم کے اس تین ماہ پر مشتمل وقفے میں پاکستانی نژاد ورلڈ بنک کے سابق نائب صدر معین قریشی وزیر اعظم مقرر ہوئے اور انھوں نے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل کابینہ تشکیل دی تھی۔6اکتوبر کو منعقد ہونے والے الیکشن میں پیپلزپارٹی جیت گئی اور 19 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا جب کہ مایوس نواز شریف کا اپنی سیاسی زندگی میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔

Faith, Unity, Discipline: The ISI of Pakistan Hardcover

One Comment