اقوام متحدہ میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں ہو گا، بھارتی فیصلہ

پاکستان کی طرف سے کشمیر کے متنازعہ خطے کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر پوری شدت سے اٹھانے کی کوششوں کے برعکس بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا کوئی ذکر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کے اس کے زیر انتظام حصے کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کا فیصلہ اس کا داخلی معاملہ ہے اور چونکہ اقوام متحدہ عالمی مسائل پر غور کرنے کا پلیٹ فارم ہے، اس لیے بھارت وہاں اپنی توجہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھے گا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے 21 ستمبر کو دہلی سے امریکا روانہ ہو رہے ہیں۔ وہ 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

ان کی روانگی سے قبل بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے کیشو گوکھلے نے جمعہ بیس ستمبر کو میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نریندری مودی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر میں بھاتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کریں گے۔

گوکھلے کا کہنا تھا، آئین کی دفعہ 370 کا معاملہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ اس پر اقوام متحدہ میں کوئی بات نہیں ہو گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ اور امریکا کے اپنے دورے کے دوران کشمیر اور آرٹیکل 370 پر کوئی توجہ نہیں دیں گے بلکہ وہ اپنی تقریر میں بدلتی ہوئی دنیا کے اہم امور بالخصوص کثیرالجہتی عالمی نظام سے بھارت کی توقعات اور اس میں نئی دہلی کے کردار کو نمایاں کریں گے۔ وزیر اعظم مودی اس بات پر توجہ مرکوز رکھیں گے کہ اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارت کا کردار کیا ہو سکتا ہے۔

جب بھارتی خارجہ سیکرٹری سے یہ کہا گیا کہ پاکستان نے تو کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر پوری شدت کے ساتھ اٹھانے کا اعلان کیا ہے، تو گوکھلے نے کہا، ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان اقوام متحدہ میں کیا کرنے یا کہنے جا رہا ہے۔ اگر پاکستانی وزیر اعظم اس مسئلے پر تقریر کرنا چاہتے ہیں، تو ان کی مرضی۔ وہ بخوشی ایسا کریں۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔ بھارتی وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان امور پر توجہ مرکوز رکھیں گے، جو اس بین الاقوامی پلیٹ فارم کے لیے اہم ہے۔ ایک اہم ملک کی حیثیت سے اور اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر بھارتی وزیر اعظم ان امور کا ذکر کریں گے جن پر بھارت ترقی، سلامتی اور امن کے لیے عمل پیرا ہے‘‘۔

نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو بھارتی پارلیمان کے توسط سے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی شق 370 کے ختم کیے جانے کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ کشیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے وزیر اعظم نریندر مودی کو امریکا جانے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے پاکستان نے بھارتی صدر رام ناتھ کووند کو بھی آئس لینڈ کے ایک سرکاری دورے کے لیے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ بھارت نے پاکستان کے اس رویے کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔

جب بھارتی خارجہ سیکرٹری سے اس حوالے سے ایک سوال کیا گیا، تو ان کاکہنا تھا، جہاں تک فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا سوال ہے، تو یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کے سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کو اپنی فضائی حدود سے ہو کر پرواز کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اگر کوئی نارمل ملک ہوتا تو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرتا۔ امید ہے کہ پاکستان کو اپنی غلطی کا احساس جلد ہو جائے گا۔۔

بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے گوکھلے نے کہا، جہاں تک اس معاملے کو کسی بین الاقوامی تنظیم میں لے جانے کی بات ہے، تو ہم اس پر غور کریں گے۔ فی الحال ہمارا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ (پاکستان بین الاقوامی سول ایوی ایشن تنظیم کے ضابطوں کی خلاف ورزی کریں گے، تو ہم یقیناًاس پر غور کریں گے‘‘۔

اس حوالے سے جموں وکشمیر اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹرآشوتوش بھٹناگر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، دراصل پاکستانی رہنماؤں نے جموں و کشمیر سے متعلق اپنے ملک کے عوام کو جس طرح سات عشروں تک گمراہ کیا ہے، وہ غلط فہمی آئین کی شق 370 کے خاتمے کے مودی حکومت کے فیصلے سے دور ہو گئی ہے۔ اسی لیے پاکستانی حکومت اور فوج بھی پریشان ہیں اور دنیا بھر میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں تاہم انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی‘‘۔

بھٹناگر کا مزید کہنا تھا، ”پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں پوری دنیا کو اپنی سوچ کی حامی بنا لیں گے۔ یہ ان کی خوش فہمی ہے، جو دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ وہ بدلی ہوئی عالمی صورت حال کو جتنا جلد سمجھ لیں، اتنا ہی اچھا ہو گا۔ بھار ت آج ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے اور کسی بھی ملک کے لیے بھارت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا“۔

DW

Comments are closed.