کیا ہمسائے ہمارے دشمن ہیں؟

قانون فہم

میاں محمد نواز شریف جب وزیراعظم پاکستان تھےتو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کار بہتر رکھنے کی خواہش میں وزیر خارجہ کا تقرر ہی نہیں کیا تھا اور خارجہ امور مکمل طور پر پر اسٹیبلشمنٹ کے سپرد کر دیے تھے۔ ایرانی حکومت زرداری دور میں کیا گیا گیس پائپ لائن کا منصوبہ پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ ایرانی صدر نے میاں محمد نواز شریف سے مذاکرات کیے اور بالآخر دونوں ملکوں میں گیس لائن منصوبہ کو آگے بڑھانے میں اتفاق ہو گیا۔اسکے لئے ایران نے ایک بھاری رقم جو بطور جرمانہ پاکستان کی ذمہ تھی معاف کر کے آگے بڑھنے کا اعلان کیا اور ایرانی صدر کی پاکستان آمد کا فیصلہ ہوا ۔

عین اس وقت جب اسلام آباد ائیرپورٹ پر ایرانی صدر قدم رنجہ فرما رہے تھے۔ اسی وقت پاکستان کے ٹی وی چینلز پر ایک فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیونامی ایک جاسوس بلوچستان میں موجود تھا اور بلوچ مزاحمت کاروں کی مدد اور انہیں فعال رکھنے کے لیے ان کی مالی مدد اور اسلحہ مہیا کرنے کے جرائم میں شریک تھا۔

بلاشبہ اگر کوئی ملک دشمن انسان پکڑا جاتا ہے۔ تو اس کے ساتھ سخت ترین اور بدترین سلوک ہونا چاہیے ۔ مجھے یہ ماننے میں تامل ہے کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلا درانداز دہشت گرد تھا جسے گرفتار کیا گیا۔اگر اس سے قبل کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور انہیں سزائیں دی گئیں تو کم از کم ٹی وی چینل پر ان کا انٹرویو آنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ عمومی طور پر اس طرح کے معاملات خاموشی کے ساتھ ہی کیے جاتے ہیں اور وہ ممالک ایسے لوگوں کو منظر عام پر لائے بغیر انجام تک پہنچا دیتے ہیں جس میں اس طرح کے واقعات عام ملتے ہیں۔

مگر یہ واقعہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک ہمسایہ ملک کا صدر اچھے تعلقات کی نیت سے اسلام آباد میں قدم رکھتا ہے تو ایک انڈین کے منہ سے اس پر اس طرح کی الزام تراشی کی جاتی ہے کہ سب کچھ غتربود ہو کر رہ گیا۔ ہوسکتا ہے کہ بھارتی ایجنسی را نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار ہی اس نیت سے کروایا ہو یا دانہ کے طور پر پھینکا ہو کہ پاکستان اور ایران کے معاملات آپس میں میں ختم ہو کر رہ جائیں۔ بہرحال سچ کچھ بھی تھا کلبھوشن یادیو کے ٹی وی انٹرویو نے پاکستان اور ایران کے تعلقات کو اس طرح سے نقصان پہنچایا کہ آج تک وہ رخنہ بھرا نہیں جاسکا۔

اس بابت ایسٹیبلشمنٹ مخالف حلقوں میں جو اسٹوری دستیاب ہے وہ یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو ایک ریٹائرڈ نیوی آفیسر تھا جو پاکستانی ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کی طرح لینڈ ڈویلپمنٹ اور تعمیرات کے شعبہ میں ٹھیکیداری کرتا تھا ۔اسے پاکستانی ایجنسی نے دہشت گرد گروپ کے ذریعے چاہ بہار سے اغوا کروایا اور یہ ڈرامہ اسٹیج کرکے پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرکے سعودی عرب سے نقد ادائیگی وصول کی ۔

میں اس بات کی پرزور مذمت کرتا ہوں یہ بات غلط ہو سکتی ہے۔ مگر کلبھوشن یادیو سے قبل کسی بھی بھی جاسوس کی گرفتاری کو کبھی منظر عام پر نہ لانے کی وجہ سے کلبھوشن یادیو ڈرامہ پوری دنیا میں معروف ہوا ۔عوام سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سچ مچ جاسوس ہوتا تو اس کا نام بھی کبھی کسی کے سامنے نہ آتا اور ہزاروں پاکستانی مسنگ پرسنز کی طرح اس کی ڈیڈ باڈی بھی کہیں جانور کھا چکے ہوتے ۔

بہرحال  کل  وزیراعظم پاکستان جب اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر شائستہ اور شستہ انگریزی میں یہ بتاتے ہیں کہ 80 لاکھ کشمیری یرغمال بنائے جا چکے ہیں۔ اور دنیا میں کوئی اس تکلیف اور رنج کو محسوس کرنے کو تیار نہیں تو ہمیں یہ سوال اپنی حکومت سے ضرور کرنا چاہیے کہ کیا انہوں نے کبھی غور کیا ہے کہ انڈیا کے اس ظلم یا زیادتی کے مقابلہ میں کون کون سے ممالک سے ہمیں حمایت دستیاب ہو سکتی ہے۔

ایران وہ پہلا ملک ہے جو پاکستان کو اس معاملہ میں مکمل اور غیر مشروط حمایت دے سکتا ہے۔اس کے علاوہ افغانستان اور چین کی حمایت بھی ہمیں مل سکتی ہے۔برطانیہ میں لاکھوں کشمیری موجود ہیں حکومت برطانیہ کی حمایت بھی ہمیں مل سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرنے ،کرفیو نافذ کرنے ، ظلم و ستم کا آغاز کرنے کے بعد سے آج تک وزیراعظم یا حکومت نے مذکورہ بالا تینوں ممالک سے کشمیر ایشو پر حمایت کے حصول کے لیے کتنی جدوجہد کی ہے۔

کیا کوئی پاکستانی وفد ایران گیا اور اس نے ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں یا غلطیوں پر افسوس کا اظہار کیا اور آئندہ کے لئے قدم بقدم چلنے کا کوئی عزم ظاہر کیا۔ یاد رہے کہ چین اس سے قبل ایران میں 400 ارب سے زائد کی انویسٹمنٹ کا اعلان کرچکا ہے۔ کیا چین افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ میں بیٹھ کر یہ اعلان کرے کہ میں ہمسایہ ممالک کی وجہ سے تتے توے پر بیٹھا ہوں۔

میں بطور ایک عام پاکستانی کے حکومت پاکستان سے سوال کرتا ہوں کہ وہ تقریریں کرنے کی بجائے مجھے چین ایران اور افغانستان سے حمایت کے حصول کے لیے کی جانے والی گزشتہ تین ماہ کی جدوجہد کے بارے میں مطلع فرمائیں۔

کیا وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ میں یہ بتانے گئے تھے کہ ہمارے ہمسائے ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں اور ہم اپنے ہمسائیوں کے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہ بنانا چاہتے ہیں نہ ہمارا تعلق ہے بلکہ ہماری ان سے دشمنی ہے لہذا پوری دنیا ہمارا قیمہ بنا کر کھا جائے۔یاد رہے کہ بین الاقوامی سطح  پر اپنے ہمسایوں پر عدم اعتماد کا اعلان کرنا اپنی کمزور ترین پوزیشن کو دشمنوں پر واضح کرنا ہے۔

وزیراعظم کی امریکا میں کی گئی تمام گفتگو نے پاکستان کو کمزور ترین پوزیشن میں ننگا کیا ہے اور ہر گز اس سے کوئی کامیابی حاصل کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔

Comments are closed.