اِک وعدہ جو وفا نہ ہو سکا

محمد انس

قیام پاکستان کو سات دہائیاں بیت گئیں۔اتناعرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مؤرخین کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی تشکیل کے حقیقی مقاصد کیا تھے؟ جناح صاحب کے ذہن میں پاکستان کا کیا تصور تھا؟ کیا قیام پاکستان کا مقصد صرف مسلم اقلیت کو ہندو اکثریت کی جارحیت سے بچانا تھا؟ اگر واقعی ایسا تھا تو مسلم اکثریت کے پاکستان میں دوسری اقلیتوں کے رتبے کے متعلق جناح صاحب کے کیا نظریات تھے؟

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستانی تاریخ متنازعہ ہے۔ ایک تاریخ کا طالب علم تشکیل پاکستان سے متعلقہ معاملات پر مختلف نظریات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مؤرخین کا دو دھڑوں میں تقسیم ہونا ہے۔ایک طرف روشن خیالدانشور ہیں جنہوں نے ہمیشہ جناح صاحب کی ۱۱ اگست کی تقریر کا پرچار کیا اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی۔دوسری جانب قدامت پسند دانشور ہیں جنہیں ہمیشہ سرکار کی سرپرستی حاصل رہی اور انھوں نے سرکاری چھتری تلے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کا چورن بیچا۔

نصابی کتب میں تاریخ پاکستان کے جس پہلو کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا وہ اقلیتوں کا معاملہ ہے۔نئی نسل کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ جناح صاحب اقلیتوں کو کیا رتبہ دینا چاہتے تھے؟ جناح صاحب کی صرف اُن تقاریر کو نصاب کا حصہ بنایا گیا جن میں قیام پاکستان کے اسلامی پہلوؤں پر زور دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس جناح صاحب کے ان نظریات کو عام نہیں کیا گیا جس میں انھوں نے نوزائیدہ ریاست کے خدوخال پر روشنی ڈالی تھی۔ مثلاً یہ کہ پاکستان میں طرز حکومت کیا ہوگا؟ مختلف اداروں کی کیا حدود ہونگی؟ اقلیتوں کا کیا رتبہ ہوگا؟

اگر جناح صاحب کے اقلیتوں کے متعلق نظریات پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ بانی پاکستان اقلیتوں کو برابری کے حقوق دینے کے قائل تھے۔ دستور ساز اسمبلی میں جناح صاحب کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو کی گئی تقریر درحقیقت اقلیتوں کے متعلق ان کی سوچ کی عکاس ہے اور مسلم اکثریتی ریاست کے سربراہ کا اقلیتوں کے ساتھ ایک معاہدہ ہے۔ جناح صاحب نے اس تقریر میں واشگاف الفاظ میں واضح کیا کہ آپ آزاد ہیں۔۔۔۔آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔آپ اس ریاست پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب، ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ہم سب اس ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔

اس تقریر کا پس منظر وہ قتل وغارت ہے جو سرحد کے دونوں جانب جاری تھی اور جس میں ہر فرد اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا تھا۔روشن خیال دانشوروں نے اس تقریر کو لیکر ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ جناح صاحب پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ کاش ہمارے لبرل دانشور اس تقریر کو لیکر اقلیتوں کے حقوق کا علم بلند کرتے!۔

اس تقریر سے منسلک ایک دلچسپ پہلو یہ کہ مقتدر حلقوں نے جناح صاحب کی اس تقریر کو ڈان اخبار میں سنسر کرانے کی پوری کوشش کی کیونکہ ان کے خیال میں جناح صاحب کی تقریر کا یہ حصہ دو قومی نظریے کی نفی تھا۔ ڈان اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین کے جناح صاحب کے علم میں معاملہ لانے کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور طاقتور حلقوں کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کی پوری تفصیل ضمیر نیازی کی کتاب پریس پابند سلاسلمیں پڑھی جاسکتی ہے۔

جناح صاحب اقلیتوں کے حقوق کے علمبردار تھے۔آپ نے اقلیتوں کے حقوق کی اہمیت کو مختلف مواقع پر واضح کیا۔ ایک موقع پر جناح صاحب نے فرمایا کہ ہم ہندوؤں کو کامل یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور برادرانہ سلوک کیا جائے گا۔ اس کے ثبوت میں ہماری تاریخ شاہد ہے اور اسلامی تعلیمات نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا ہم پاکستان میں تمام اقوام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہتی ہیں۔۔

جناح صاحب نے اقلیتوں کے حقوق کاصرف لفظی پرچار ہی نہیں کیا بلکہ وزارت قانون کا قلمدان ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل اور وزارت خارجہ کا ایک احمدی سر ظفر اللہ خان کو سونپ کر اس کا عملی مظاہرہ کیا۔اس طرح پاکستان کا پہلا کمانڈر انچیف ایک مسیحی سر فرینک والٹر میسروی کو مقرر کیا۔

پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اقلیتوں کا کلیدی کردار ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی افراد نے پاکستان کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔پاکستان کی تشکیل میں متحدہ پنجاب کی اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا کردار بھلا کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔اس طرح عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے جسٹس کارنیلس،کیپٹن سیسل چوہدری،ڈاکٹر روتھ فاؤ؛ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے جسٹس رانا بھگوان داس؛ احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والےجسٹس دراب پٹیل بلاشبہ پاکستان کا فخر ہیں۔پاکستان کو اپنے ان سپوتوں پہ ہمیشہ ناز رہے گا۔

عصر حاضر کا پاکستان جناح صاحب کے نظریات کے بالکل مخالف سمت میں چل رہا ہے۔۱۹۷۳ء کے آئین کی دفعہ ۳۶ کے برعکس، آج پاکستان میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ثانوی درجے کے شہری ہیں جو عدم تحفظ اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ ہندو لڑکیوں کے اغواء کے بعد جبری شادیاں،عیسائیوں پر بلاسفیمی کے جھوٹے مقدمات اور احمدیوں کے منظم قتل عام کو خاموش اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کو انتہاپسندی، مذہبی منافرت اور تکفیریت نے جکڑ رکھا ہے۔معتدل اور متوازن سوچ کا فقدان ہے۔ جناح صاحب نے تو ایک احمدی کو وزیر خارجہ بنا کر دکھایا لیکن نئے پاکستانمیں ایک احمدی اقتصادی امور کا مشیر نہیں بن سکتا۔

پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار تاریخ سے نابلد ہیں۔ ہمارے نبی حضرت محمدؐ نے مشرکین کے ساتھ میثاق مدینہ معاہدہ کیا، نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی (کیا آج کے دور میں کوئی مسیحی ہماری مسجد میں داخل ہونے کی جرأت کر سکتا ہے)، امن کو جنگ پر ترجیح دیتے ہوئے کفار کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا اور فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا۔اقلیتوں پر ظلم کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کو ان کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے: “خبردار!جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اس سے چھین لی تو روز قیامت میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔

پاکستان کے قیام کا مقصد مسلم اقلیت کے تحفظ کے ساتھ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سازگار ماحول فراہم کرنا تھا جس میں وہ بلاخوف و خطر اپنی زندگیاں گزار سکیں۔افسوس صد افسوس! پاکستان اپنے قیام کا حقیقی مقصد حاصل نہ کر سکا۔ ہمارے سماجی روئیے قیام پاکستان کے مقصد کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جناح صاحب کی طرف سے اقلیتوں کے ساتھ کیے گئے وعدے کو بجا لانے کیلئے ریاست پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.