نیا زمانہ کی کہانی

محمد شعیب عادل

جیسے کہ میں بتا چکا ہوں کہ نیا زمانہ کا آغاز مئی 2000 میں ہوا اور مسلسل چودہ سال ایک ماہ شائع ہونے کے بعد یہ جون 2014 میں بند ہوگیا جس کی وجہ مولانا طاہر اشرفی کے بھائی حسن معاویہ کا مجھ پر توہین رسالت کا الزام لگانا تھا اور پولیس مجھے اس الزام میں پکڑ کر لے گئی تھی۔ حسن معاویہ نے یہ الزام کیوں اور کس بنیاد پر لگایا ۔ اس کو سمجھنے کے لیے میں کچھ پس منظر بیان کرتا ہوں۔

پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کی صورتحال ہمیشہ سے ہی خراب چلی آرہی ہے اور آئے روز ان کے خلاف کوئی نہ کوئی ظلم وستم کا واقعہ اخبارات میں چھپتا ہی رہتا ہے۔ ایک انتہا پسند اور طالبانا ئز سماج میں اپنے مخالف کو توہین مذہب یا توہین رسالت کے نام پر نشانہ بنانا بہت ہی آسان ہے۔ نیا زمانہ میں ہمیشہ توہین مذہب و توہین رسالت کے قانون پر تنقید کی گئی اور اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیاجاتا۔

نیازمانہ شاید واحد اردو میگزین تھا جس میں جب بھی احمدیوں کے خلاف ریاستی و سماجی سطح پر کوئی زیادتی ہوتی تو میگزین میں اس کی مذمت کی جاتی ۔ میگزین میں احمدیوں کے علاوہ شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ، امام بارگاہوں پر خودکش حملوں، ہندووں کی نوجوان لڑکیوں کے اغوا اور مسیحیوں کی آباد ی پر حملوں کی بھی اتنی ہی شدت سے مذمت کی جاتی تھی مگر پاکستان کے مسلمانوں کو احمدیوں پر مظالم کی مذمت بری لگتی تھی اورایک منظم پروپیگنڈا تشکیل پاگیا کہ نیا زمانہ احمدیوں کا پرچہ ہے اور احمدی اسے سپورٹ کرتے ہیں۔ اور اس کی ایک وجہ مسلسل شیزان جوس کے اشتہار کا چھپنا بھی تھا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ شیزان کے مالک احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

شکیل چوہدری میرے دوست ہیں ایک دن فون پر کہنے لگے جب بھی اسلام آباد کا چکر لگے ملاقات ضرور کرنا۔ایک بار جب گیا تو وہ مجھے لنچ کے لیے ایک ریستوران میں لے گئے اور میرے ایک قریبی دوست کا نام لے کر کہنے لگے کہ ان کا کہنا ہے کہ شعیب عادل احمدیوں کی کچھ زیادہ ہی حمایت کررہا ہے ۔ میں یہ سن کر حیران بھی ہوا اور افسوس بھی کہ انھوں نے مجھ سے براہ راست بات کیوں نہیں کی۔ میں نے شکیل صاحب کو بتایا کہ پچھلے ایک سال کے پرچے چیک کر لیں کہ شیعوں، ہندووں اور مسیحیوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت زیادہ ہے یا احمدیوں پر۔ لیکن انھوں نے کہا کہ وہ ایسا کہتے ہیں۔ میرے لیے یہ دہری پریشانی تھی ۔ ایک تو سماجی سطح پر میرے خلاف پراپیگنڈہ اور دوسرے میرے اپنے عزیز رشتہ دار بھی مجھے شک کی نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئے تھے۔مگر میں نے پروپیگنڈے کی پروا نہ کی اور مستقل مزاجی سے پرچےکی اشاعت جاری رکھی۔

ماہنا مہ ’’نیا زمانہ‘‘ سے آمدن نہ ہونے کے برابر تھی۔پاکستان میں میگزین کی فروخت چاہے جتنی بھی بڑھ جائے جب تک اسے اشتہارات نہیں ملیں گے وہ منافع بخش ہو نہیں سکتا۔پاکستان میں ایک روشن ، آزاد خیال اور ایسٹیبلشمنٹ مخالف میگزین نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ کیونکہ ایک تو اسے سرکاری اشتہار نہیں ملتے اور دوسرے کاروباری ادارے ایسے میگزین کو اشتہار دے کر مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ایک کاروباری ادارے نے اشتہار دیا جو جماعت اہل حدیث کے میگزین ’’محدث ‘‘ کو بھی اشتہار دیتا تھا ۔ نیا زمانہ کو اشتہار دینے پر محدث والوں نے سخت اعتراضات کیے۔ کاروباری ادارے کے مالک نے مزید کسی بحث کی بجائے نیا زمانہ کو اشتہار بند کر دیا۔

اگر کسی کاروباری ادارے نے اشتہار دینے کی غلطی کی بھی تو مجلس تحفظ ختم نبوت والے اسے بندکروا دیتے تھے۔ ایک دفعہ میرے دوست لیاقت علی ایڈووکیٹ نے لاہور کے ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون سے اشتہار لے کر دیا۔ ان کے چیف ایگزیکٹیو ایک روشن خیال شخص تھے بلکہ ابھی بھی ہیں ۔ انھوں نے ماہانہ اشتہار کا وعدہ کیا ۔ ابھی ایک ہی اشتہار شائع ہوا تو انھوں نے معذرت کر لی کیونکہ ان کے مالک جو کہ لاہور میں تمام جہادی تنظیموں کو چندہ دیتے تھے نے چیف ایگزیکٹو سے پوچھا کہ یہ نیازمانہ والے کون ہیں جسے تم نے اشتہار دے دیا ہے ، لوگ مجھے پوچھ رہے ہیں۔ چیف ایگزیکٹو نے مجھے کہا کہ آئندہ اشتہار نہ لگانا مگر میں ویسے تمھیں رقم دیتا رہوں گا۔اشتہارات کے علاوہ کچھ گنے چنے خوشحال لوگ تھے جن سے ہر سال لائف ممبر شپ کے نام پر پانچ دس ہزار روپے چندہ مل جاتا ۔ اس سے میگزین تو نکل آتا مگر آمدن نہ ہوتی۔

جہاں تک سرکاری اشتہارات کا مسئلہ تھا اس میں کبھی کبھار کامیابی ہوجاتی تھی۔ جنرل مشرف کے دور میں تو اشتہار وں کے حصول کی کوشش نہ کی۔ جب 2008 میں مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت بنی تو اشتہارات کا سلسلہ بہتر ہوا۔ نیا زمانہ میں پیپلز پارٹی کی سپورٹ زیادہ جبکہ مسلم لیگ نواز پر تنقید زیادہ ہوتی تھی کیونکہ وہ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ایسٹیبشلمنٹ کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھی لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کی حکومت سے اشتہار ملتے ۔کئی دفعہ شعیب بن عزیز فون کرکے کہتے بھئی ہتھ ہولا رکھو، لیکن انھوں نے اشتہار بند نہ کیے ۔ ان کے علاو ہ پرویز رشید بھی خیال کرتے تھے جبکہ مرکز میں فوزیہ وہاب اور فرحت اللہ بابر مدد کرتے تھے۔

گورنمنٹ کے اشتہار انتہائی واجبی ہوتے لیکن نہ ہونے سے بہرحال بہتر تھے۔سرکاری اشتہار لینا بھی پوری ایک سائنس ہے۔ اول تا اخر جھوٹے اعداد و شمار کے ذریعے اشتہارات ملتے ہیں اور پھر ’’متعلقہ‘‘ حکام کی چاپلوسی اور مٹھی گرم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ میں تو ان شعبوں میں کمزور تھا مگر آہستہ آہستہ ان کمزوریوں پر قابو پار ہا تھا۔ ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ نواز کی میڈیا ہینڈلنگ ، پیپلز پارٹی سے کہیں بہتر تھی۔

آمدن کے لیے میرا کاروبار پرنٹنگ ، پبلشنگ اور کتابوں کی ٹریڈنگ کا تھا۔ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا کلچر ویسے ہی ختم ہوچکا ہے۔ مذہبی کتابوں سے آمدن ہو جاتی ہے اور صرف روشن خیال کتابیں شائع کرنا بھی گھاٹے کا سودا ہے۔ میرے پبلشنگ ہاوس کا پہلا نام، آواز اشاعت گھر تھا اور پھر یہ نیا زمانہ پبلی کیشنز ہو گیا۔ کچھ کتابوں کے ٹائیٹل پر تو اپنی سرمایہ کاری کرتے اورکچھ کتابیں مصنف پیسے دے چھپواتے تھے۔ جن میں شاعری اور سوانح حیات شامل تھیں۔

اردو ادب کے استاد ڈاکٹر پرویز پروازی نیا زمانہ کے مستقل لکھاریوں میں سے تھے۔۔ ان کی خصوصیت یہ تھی انھوں نے برصغیر میں شائع ہونے والی ااردو اور انگریزی سوانح حیات کا تنقیدی جائزہ لیا تھا۔ اور پاکستان میں اردو ادب میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کام تھا۔ پرویز پروازی کا قصور احمدی ہونا بھی تھا اور وہ اپنی تحریروں میں احمدیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بھی بات کرتے۔ نیا زمانہ پبلی کیشنز نے ان کی سوانح حیات کے تبصروں پر تین کتابیں ’’ پس نوشت( حصہ اول ، دوم اور سوم )شائع کیں جن کی کافی پذیرائی ہوئی۔

پرویز پروازی کے ریفرنس سے ہی نیا زمانہ کے دفتر میں ایک دن لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج،محمد اسلام بھٹی ملنے آئے۔جج صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں مقیم تھے اور ہرسال پاکستان آتے ۔انھوں نے مجھے کہا کہ میں نے اپنی سوانح حیات لکھی ہے اور پرویز پروازی نے مجھے کہا ہے کہ ان سے جاکر ملو اور اپنی کتاب چھپوا لو۔ یہ میری کتاب کا مسودہ ہے مجھے خرچہ بتاو۔ میں نے کتاب کی ضخامت کو دیکھ کر انہیں خرچہ بتا دیا ۔ بات طے ہوگئی انھوں نے مجھے سی ڈی پر ٹائپ شدہ مسودہ دیااور مطلوبہ رقم کا چیک دے دیا۔یہ کتاب2009-10 کے درمیان شائع ہوئی۔ کتاب کا نام تھا ، عدالت عالیہ تک کا سفر ، یہ کتاب کچھ فروخت ہوئی اور زیادہ تر جج صاحب نے اپنے دوست احباب کو گفٹ کر دی۔

اور 2014میں اسی کتاب کی اشاعت پر حسن معاویہ نے مجھ پر توہین رسالت کا الزام لگایا تھا۔۔۔۔

دوستو کہانی ابھی جاری ہے۔