دنیا کا پہلا توحیدی مذہب

خالد تھتھال


تاریخی اعتبار سے زرتشتیت دنیا کا پہلا توحیدی مذہب ہے۔ اگرچہ زرتشتیت کے آغاز کےصحیح وقت کا تعین اور اس کے متعلق قاطع انداز میں کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس مذہب کا آغاز کب ہوا لیکن اس کا ذکر سب سے پہلے ہخا منشی بادشاہوں کے زمانے میں ملتا تھا۔ اسی سلسلہ کے بادشاہ داریوش اوّل کے زمانے میں دربار میں زرتشتی موبد موجود تھے، اور کچھ لوگوں کے بقول یہ بادشاہ زرتشتی تھا۔ داریوش اوّل کے بعد کےہخامنشی بادشاہوں کا خدا آہور مزدا تھا ۔ انہیں کے زمانے میں ایزد کے نام سے مہینوں کے نام رکھے گئے ۔ مسجد سلیمان نامی شہر میں موجود آتشکدہ جاویدان ساتویں صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوا تھا۔

یونانی مورخین کے بقول آہور مزدا کے علاوہ مختلف خداؤں اور فطرت کی قوتوں کی بھی پوجا بھی ہوتی تھی۔ لیکن آہور مزدا کے ساتھ قدیم مذاہب بھی کسی نہ کسی طور پر موجود رہے۔ ایزدی مذہب اور متھرا مت بھی موجود تھے اور اناہتا دیوی کی پرستش بھی ہوا کرتی تھی ۔پارتھیوں، جنہیں اشکالی بھی کہا جاتا ہےکے زمانے میں زرتشی مذہب کی تجدید ہوئی، ایزدان کے نام سے سکے ڈھالے گئے اور آتشکدوں کی تعمیر ہوئی۔ ان میں خراسان کے نزدیک ریوند نامی پہاڑ میں تعمیر شدہ آذر برزین‌مہر کو بہت اہمیت حاصل تھی۔

داریوش سوم کے زمانے میں سکندر مقدونی نے پارتھیوں کے شہنشاہ داریوش سوم کو شکست دی اور اُس کے دارالحکومت تخت جمشید کو تباہ کر دیا گیا۔بادشاہ کا محل بھی تباہ ہوا، اور سرکاری لائبریری بھی تباہ ہوئی جس کے نتیجے میں وہاں موجود تمام کتابیں اور دستاویزات تلف ہو گئیں۔ اس تباہی کی کہانی یا گواہی خشایارشا کے کھنڈرات دیتے ہیں۔

سکندر اعظم کےحملے اور موبدوں کے قتل کے بعد یہ مذہب تھوڑی دیر کے لئے بجھ گیا۔ کیونکہ اس وقت زیادہ تر مذہبی کام موبدوں کو زبانی یاد کروایا جاتا تھا، اور یہ موبد زرتشیت کی چلتی پھرتی زندہ کتابیں تھے۔ ۔ ان کے قتل کے نتیجے میں زرتشیت کی بہت سی قدیم کتابیں تباہ یا ختم کردی گئیں جس کا ذکر دینکارد اور اردا ویراف نامہ میں ملتا ہے کہ سکندر نے سرکاری آرکائیو کو تباہ کر دیا، کتابیں جلا دیں اور موبدوں، منصفوں اور دانا لوگوں کو قتل کر دیا۔اسی وجہ سے زرتشتی ہمیشہ سکندر پر لعنت بھیجتے ہیں۔

سکندر کی ایران میں تباہی کے بعدساسانی دور خصوصی طور پر ردشیر بابکان کے زمانے میں زرتشتیت کو دوبارہ عروج حاصل ہوتا ہے۔ اسے سرکاری مذہب تسلیم کیا گیا، جس سے زرتشیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔اوستا کو دوبارہ جمع کر کے لکھا گیا۔ ساسانی دور میں آذر بائیجان کے علاقے میں اس قدر آتشکدے تعمیر ہوئے کہ اس علاقے کا نام آذر بادکان پڑ گیا۔اس دور میں آذر بائیجان میں تعمیر شدہ آذر گشنسب نامی آتشکدے کو بہت اہمیت حاصل ہوا۔ ساسانی بادشاہ ہر فتح کے بعد اسی آتشکدے میں چڑھاوے چڑھاتے تھے۔

ساسانی دور میں ہی مانی نام پیغمبر کا ظہور ہوا جس نے زرتشتیت اور عیسائیت کے مرکب سے ایک نئے مذہب کا آغاز کیا۔ جو اگرچہ بہت تیزی سے پھیلا لیکن اسے ساسانی بادشاہوں اور دستوروں کی بہت مخالفت کا سامنا ہوا۔ انوشیروان کے زمانے میں اوستا کو پہلوی زبان میں لکھا گیا۔

سکندر کے بعد گو ساسانی دور میں زرتشیت کو عروج نصیب ہوتا ہے لیکن عرب سے ایک صحرائی آندھی اٹھی اور زرتشیت کو پھر انہی حالات کا سامنا ہوا جو سکندر کے حملے کے وقت ہوا تھا۔ نہاوند کے مقام پر یزدگرد سوم کی فوجوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی جس کے نتیجے میں ہر قسم کی لوٹ مار، غلامی ، جزیہ کے نفاذ کی وجہ سے کافی آبادی انڈیا کے شہر گجرات کو منتقل ہو گئی اور وہیں اپنی مقدس آگ کو آتش بہرام کے نام سے روشن کیا۔

زرتشتیوں کے اسی گروہ کے نتیجے میں بھارت میں پارسی برادری کی تشکیل ہوئی۔۔ عربوں کے حملوں کے نتیجے میں بھی علم و فضل کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ سعد بن وقاص نے فتح ایران کے بعد مدائن کے کتب خانے کی صدیوں پرانی تمام کتابیں تلف کر دیں۔

جب اسلام کا ظہور ہوا اور مسلمانوں نے جا کر ایران فتح کیا تب بھی وہاں بہت سی کتابیں پائی گئیں۔ اور سعد بن ابووقاص نے خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب کو لکھا کہ ان کتابوں کا کیا کیا جائے؟ کیا ان کا مسلمانوں کو بانٹنامناسب ہے؟۔ آپ نے جواب میں لکھاکہ ان کتابوں کو دریا میں ڈال دو کیونکہ اگر یہ کتابیں رشد و ہدایت سے بھرپور ہیں تو ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس قرآن مجید موجود ہے اور اگر ان کتابوں میں ضلالت و گمراہی موجود ہے تو انہیں دریا میں ڈال دینا مناسب ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس لیے پارسیوں کے علوم ہم تک نہیں پہنچے“۔

مقدمہ ابن خلدون میں لکھا ہے کہ

زرتشتیت ایک قدیم آریائی مذہب ہے، جس کا ظہور 1500 قبل مسیح فارس میں ہواتھا۔ لیکن اس مذہب کا اصل نام مزدیسنا ہے۔مزدَیَسنا ایک مرکب لفظ ہے ، (مزد۔یسنا) مزد سے مراد خدائےدانا اور یسنا پرستش کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یوں مزدیسنا سے مراد آہور مزدا کی پرستش کرنے والے ہیں۔ اور مزدا کے ماننے والے مزدیسنی کہلاتے ہیں۔ آہور کا مطلب ”آقا “ہے۔ مزدَیَسنا کا لفظ دیویَسنا کا الٹ ہے جس کا مطلب دیو یعنی شیطان کی پرستش کرنے والے ہیں۔ مزدیسنا اپنے پیغمبراشو زرتشت اسپنتمان کے نام کی مناسبت سے زرتشتی کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔

اس مذہب کی بنیاد زرتشت نے 1000 سے 1500 قبل مسیح میں رکھی۔ زرتشت نے گاتھا میں لکھا ہے کہ مغوں کے قدیم مذہب میں جو توہمات شامل ہو گئے تھے ،انہیں پاک کیا جائے۔چنانچہ زرتشت نے قدیم آریائی عقائد کی تدوین اور اس پر نظر ثانی کی، آہستہ آہستہ انہیں اسے اپنے مذہب کے پیروکار مل گئے جو بعد میں مزدیسنی یا زرتشتی کہلائے۔ مزدیسنی توحید پرست ہیں یعنی ان کے عقائد کا سرچشمہ توحید پرستی ہے۔

زرتشتیوں کی ایک اور مقدس کتاب گاتھا ئیں ہیں جس میں زرتشت کی الفاظ درج ہیں زرتشتی توحید پرست یعنی خدائے بزرگ آہور مزدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے اچھائی کے نمائندے کے طور پر سمجھتے ہیں ، اس کے مقابلے میں وہ تمام شر کو اہرمن سے منسوب کرتے ہیں۔اہورمزدا اور اہرمن دونوں ہمیشہ سے موجود تھے، اہرمن کو اوستائی زبان میں انگرہ مَینیو کہا جاتا ہے۔اور امشاسپند اہور مزدا کا نام ہے۔زرتشت مذہب کی علامت آگ کا پیالہ ہے جسے مہر کہتے ہیں۔

اہورا مزدا(یزداں) خالق اعلیٰ اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسری اہرمن جو بدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے ۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔ جب اہورا مزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ و عصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔

فرشتے اصل میں آہور مزدا کے اوصاف ہیں جو اہم ترین فرشتوں کی صورت میں موجود ہیں جنہیں امیش سپندان کہا جاتا ہے، آہور نے انہیں بنایا ہے اور یہ مختلف ذمہ داریاں نبھاہتے ہیں۔

بہمن: سب سے مقرب فرشتہ ہے، یہی وہ فرشتہ ہے جس کے ذریعے آہور مزدا اپنا پیغام پیغمبروں کو پہنچاتا ہے۔ آہور مزدا کے دائیں جانب بیٹھتا ہے، خالق کی نورانی تجلی کے مظہر کی علامت ہے، اس کا تعلق نیک پندار سے ہے لہذا انسان کے دلوں میں اچھے خیالات پیدا کرتا ہے، موت کے بعد انسانوں کا استقبال کرتا ہے اور جنت کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ جانوروں کا نگہبان ہے

اردی بہشت: جسے اشہ وہشت بھی کہا جاتا ہے: آگ، روشنی اور تجلیات کا موکل ہے۔ روشنی خواہ کسی قسم کی ہو وہی پھیلاتا ہے۔ دنیا میں نظم اور خدائی قانون برقرار رکھتا ہے۔ عبادات پر نظر رکھتا ہے اور جن سے یہ خوش نہ ہو، وہ بہشت کے حقدار نہیں ٹھہرتے۔ صرف دنیا میں ہی نظم برقرار نہیں رکھتا بلکہ دوسرے جہان یعنی دوزخ و جنت میں بھی نظم برقرار رکھنے اسی ذمہ داری ہے۔ اور اس بات کا دھیان رکھتا ہے کہ دوزخیوں کو پہرے دار گناہوں سے زیادہ سزا نہ دیں۔ اس جہان میں آگ کے ذریعے اپنی نمائندگی کرتا ہے۔

خشتره وییریہ جسے شہر یور بھی کہا جاتا ہے، خالق کی طاقت ، عظمت ، غلبہ اور طاقت کامظہر ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کی حالت زار پر نظر رکھنا اور برائی پر قابو پانا اس کی کام ہے۔ آخرت کے روز پگھلی ہوئی دھات سے سب انسانوں کی جانچ کرے گا۔مہربانی اور جوانمردی کا فرشتہ ہے۔

سپندارمذ، اسفند: زمین کی نگہبان ہونے کے علاوہ اخلاص، پاکبازی ومقدس رواداری کی نمائندہ ہے۔ یہ ایک نسائی علامت ہے، اور آہور مزدا کے بائیں طرف بیٹھتی ہے۔ زمین پر جانوروں کو چارہ مہیا کرتی ہے۔ جب لوگ زمین پر اچھے کام کرتے ہیں، مویشی پالتے ہیں، یا نیک اولاد پیدا کرتے ہیں تو یہ بہت خوش ہوتی ہے لیکن جب مرد اور عورتیں زمین پر برے کام کرتے ہیں یا چوری کرتے ہیں تو سپندارمذ بہت دکھی ہوتی ہے۔

خرداد: کاملیت، کلیت، کمال اور انسانوں کی نجات کا مظہر ہے۔ اہرمن فوہروں کی مدد سے جب پانی کو اوپر لے جاتا ہے تو خردار انہیں بارش کی صورت میں نیچے لے آتا ہےاور اس جہان میں بارش برساتا ہے تاکہ ہریالی اور شادابی رہے۔ اَمرداد: موت، نجات اور لازوالیت کیا نمائندہ ہے۔ بھیڑوں کو چرانے کے لیے پودے کاٹے جاتے ہیں تو امرداد کوشش کرتا ہے کہ پودے ختم نہ ہو جائیں۔

زرتشتی مذہب میں اہم ترین نام سروش کا ہے، جس کے معنی اطاعت یا نظم و ضبط ہے۔ سروش کسی نہ کسی شکل میں ہر مذہب میں موجود ہے۔ اسے دوسروں فرشتوں پر فوقیت حاصل ہےجب خدا کی مناجات پڑھی جاتی ہیں تو یہ انہیں آسمانوں کی طرف منتقل کرتا ہے۔ مناجات میں برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کی بھی خواہش کی جاتی ہے، اس لیےسروش ایک بہترین جنگجو کی مانند ذہین اور مسلح ہے۔ اور اپنے ہتھیار کی ایک ہی ضرب سے برائی کا سر کچل دیتا ہے۔ سروش رات کے وقت دنیا میں برائی کی تلاش میں نکلتا ہے۔ سروش کا جسم بھی ہے۔ سروش مرنے والوں کی روحوں کو دوسرے جہان میں خوش آمدید کہنے کے علاوہ اُن کی دیکھ بھال کرتا ہے۔لوگوں کو سزا و جزا سنانا اسی کا کام ہے، لوگوں کو جنت تک پہنچاتا ہے۔ سروش ہی آسمانوں کی سیر کے دوران ویراف کی راہنمائی کر تا ہے۔

زرتشتی دو جہانوں کے قائل ہیں، ایک موجود سفلی دنیا اور ایک موت کے بعد علوی دنیا۔موت کے بعد اپنے اعمال کے نتیجے میں بہشت و دوزخ میں لوگوں کو جگہ ملے گی۔ سفلی دنیا میں موجود راحت اور فرحت کامقابلہ بہشت میں موجود راحت و فرحت سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں لوگ نہ بوڑھے ہوں گے اور نہ بیمار۔

دوزخ میں بدکار جائیں گے جنہیں سزا دینے کے لیے آگ اور برف دونوں سے کام لیا جائے گا۔ انہیں اژدہے ڈسیں گے اور مختلف النوع گناہوں کی سزا بھی اُن کے گناہوں کی مناسب سے دی جائے گی۔

زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہورا مزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جاتا ہے کہ کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے غالباً اسی لیے انہیں آتش پرست سمجھ لیا گیا ۔ عرب انھیں مجوسی کہتے تھے۔

زرتشتیوں کے بقول کیومرث انسانوں کا باوا آدم ہے، اُس کے خون سے میشہ نامی مرد اور میشانہ نامی عورت بنی۔انہوں نے شادی کر لی انہی سے نسل انسانی کا آگےبڑھی ۔اسی لیےزرتشتی آج بھی بہن و بھائی کی شادی کو جائز سمجھتے ہیں۔

دساتیر کے مطابق آہور مزدا کے اوصاف کچھ یوں ہیں۔دساتیر کے مطابق خدا کی صفات کچھ یوں ہیں۔ وہ ایک ہے۔ اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اُس کا آغاز ہے اور نہ ہی انجام۔ موجود فی الخارج کوئی چیز اُس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ نہ کوئی نہ اُس کا کوئی باپ نہ ماں نہ بیوی۔ نہ اولاد۔نہ وہ کسی جا و سمت کامقید۔ نہ اُس کا کوئی جسم نہ رنگ و بو۔ نہ اُس کو آرام کی حاجت۔ نہ اُس کے حواس اور نہ اُس کے قواء۔ اور نہ وہ بے جسم اور بے شکل ہے۔ وہ ایک مقدس نور ہے۔ نہ آنکھ اُس کا احاطہ کر سکتی ہے اور نہ فکری قوت اسے تصور میں لا سکتی ہے۔ وہ اُن سب سے بڑھ کر ہے جس کے متعلق ہم سوچ سکتے ہیں۔زندہ و دانا و توانا و بے نیاز ۔ داد گر۔ خبردار۔سمیع و علیم۔ اُس کا علم ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں۔ گزشتہ، موجودہ و آئندہ کا حال اُس پر ہر وقت روشن ہے۔ نہ وہ کسی کا بدخواہ۔ نہ وہ کسی سے بدی کرے گا۔ جو کچھ اُس نے کیا اور کرے گا وہ خوب ہو گا۔ آسمان و فرشتگان ، دنیا و مافیہاکا خالق وہی ہے۔ وہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ ہم سے زیادہ ہمارے نزدیک ہے۔ اگر ہمیں قرآن کی سورت اخلاص کو پڑھیں تو ہمیں اس سورت پر آہور مزدا کی پرچھائیں صاف نظر آتی ہے۔

زرتشتیوں کی مقدس کتابیں اوستا اور دساتیر ہیں۔ ان کے بھی کئی حصے ہیں جیسے اوستا اور اوستا خوردہ۔ عموماََ زند (ژند) اوستا کا لفظ اکٹھا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ یہ دو کتابیں ہیں ۔ زند اوستا کی زند یعنی تفسیر ہے، زند کی شرح کو پازند کہتے ہیں۔ دوسری اہم کتاب گاتھا ہے ، جو پانچ حصوں میں تقسیم کی گئی ہے اس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں درج مناجات زرتشت کی لکھی ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ دساتیر بھی موجود ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مذہبی تعلیمات سولویں یا سترہویں صدر میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے پارسی عالم آذر کیوان نے مرتب کی ہیں۔

زرتشت کا زمانہ 1000 سے 1500 قبل مسیح بتایا جاتا ہے، لیکن جگہ پیدائش کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شہرستانی کے بقول زرتشت کا باپ آذر بائیجان سے تھا اور اُس کی ماں ایرانی شہر رے سے تھی۔ عربوں کے بقول بھی وہ آذر بائیجان میں پیدا ہوا۔ زرتشت کو آذربائیجان میں مخالفت کا سامنا ہوا چنانچہ وہ آذربائیجان چھوڑ کر چلا گیا۔ اُس کی موت سے ذرا پہلے اُس کی تعلیمات کو پذیرائی نصیب ہوئی اور ساسانی دور کے اردشیر بابکان کے زمانے میں زرتشیت سرکاری مذہب قرار پایا۔

طبری اور دیگر عرب روایات کے مطابق زرتشت یرمیاہ نبی کا شاگرد تھا۔ جب کہ یہودی روایات کے مطابق یہ ابراہیم تھا جسے زرتشت کا نام دیا گیا ہے۔ اشو زرتشت وہ پہلا انسان تھا جس نے توحید کا تصور پیش کیا۔ جنت، دوزخ، روز قیامت، حتی کہ فرشتوں اور شیطان جیسے تصورات ، بعد کی زرتشت اور ادبی تعلیمات کا حصہ ہیں۔اعراف کا تصور بھی زرتشتیت میں پایا جاتا ہے ۔ زرتشتی عقائد نے بہت زیادہ مذاہب کو متاثر کیا ہے۔ اس عقیدے کے کئی تصورات دوسرے مذاہب نے مستعار لیے ہیں۔

یہودیوں نے خدا اور شیطان کے اِلہٰیاتی دوئی بابل کی اسیری کے دوران میں مجوسیوں سے لی تھی۔ اس سے پہلے وہ شیطان کے تصور سے ناآشنا تھے۔ یہودیوں کے واسطے سے جنت، دوزخ، پل صراط، برزخ، عذاب و ثواب، مسیحا، حوروں اور فرشتوں کے تصورات عیسائیت اور اسلام میں نفوذ کر گئے“۔
علی عباس جلالپوری، روایت تمدن قدیم، باب، ایران میں لکھتے ہیں کہ

ان کے عقیدے کے مطابق حساب کتاب مرنے کے چار روز بعد شروع ہوتا ہے۔ نیک انسان کو ایک خوبصورتی کنواری خوش آمدید کہتی ہے اور بدکار کو ایک بدصورت بڑھیا ڈراتی ہے۔ علی عباس جلالپوری کے بقول زرتشتیوں کے عقیدے کے مطابق قیامت سے کچھ پہلے شاہ بہرام آئے گا جو زرتشتیت کا بول بالا کرے گا۔ زرتشتی پانچ نمازیں بھی پڑھتے ہیں ہیں، وضو اور عبادت کے وقت سر کو ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔

ایک بات جو زرتشیت کو ابراہیمی مذاہب سے ممتاز کرتی ہے کہ ابراہیمی مذاہب کے مطابق بدی کی طاقت یعنی شیطان خدا کی تخلیق ہے جب کہ زرتشتی تعلیمات کے مطابق اہرمن بھی آہور مزدا کی طرح ہمیشہ سے موجود ہے۔اُسے آہور مزدا یا کسی اور نے تخلیق نہیں کیا۔

ازل میں دو توام طاقتیں تھیں۔ ایک مجسم نیکی اور ایک مجسم بدی۔ ان دونوں سے مل کر ہست و نیست پیدا ہوئے۔ اور ہست خالق خیر ہوا اور نیست خالق شر۔ایک نور ہوا اور دوسری ظلمت۔ انسان ان دونوں میں جس طرف زیادہ راغب ہو جائے گا۔ اُس کی نسبت اُس میں غالب ہو جائے گی۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان ایک وقت میں ان دو متضاد قوتوں کا ہو کر رہے۔(یسنا۔30)۔

عربوں نے ایران پر قبضے کے وقت انہیں آتش پرست گردانا ۔ لیکن زرتشتی مذہب کیا تھا اس کے جاننے کے لیے اُس خط و کتابت کا درج کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا جو عمر بن خطاب اور یزدگرد سوم کے درمیان ہوئی۔ یہ خطوط ایرانی ویب سائٹس پر عام ملتے ہیں۔ ان ویب سائٹس کے مطابق یہ خطوط لندن کے میوزیم میں محفوظ ہیں۔ اس بات کا مکمل امکان ہے کہ یہ خطوط سراسر جعلی ہوں اور لندن میوزیم میں ان کا دعویٰ بھی جھوٹا ہو، لیکن پھر بھی ہمیں ان خطوط سے عربوں اور ایرانی سوچوں سے آگاہی ہوتی ہے۔

عمر بن الخطاب کا ایراانی سلطنت کے شہشاہ یزد گرد سوم کے نام:۔

یزد گرد: مجھے تمہارا اور تمہاری قوم کا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا، تا آنکہ تم میری بیعت کر لو۔ ایک وقت تھا کہ تم آدھی دنیا پر حکومت کرتے تھے، لیکن اب کس حال میں پہنچ گئے ہو۔ تمہاری فوجیں ہر محاذ پر شکست کھا چکی ہیں، تمہاری قوم تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ میں تمہیں اپنے آپ کو بچانے کی دعوت دیتا ہوں۔ خدائے واحد کی عبادت کرنا شروع کر دو، خدائے واحد جس نے کائنات کے اندر ہر چیز کو تخلیق کیا۔ ہم تمہارے اور دنیا کے پاس اسی سچے خدا کا پیغام لائے ہیں۔ آگ کی پوجا کرنا بند کر دو، اپنی قوم کو حکم دو کہ آگ کی پوجا بند کرے کیونکہ وہ ایک جھوٹ ہے۔ ہمارے ساتھ مل کر حق میں شامل ہو جاؤ۔ اللہ اکبر کی عبادت کرو، بس وہی سچا خدا اور کائنات کا خالق ہے۔ اللہ کی عبادت کرو، اور اسلام قبول کرو کہ اسی میں تمہاری نجات ہے۔ اپنے کافرانہ اطوار ختم کر دو، جھوٹ کی عبادت بند کر دو، اسلام قبول کرو، اللہ اکبر کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرو۔ یہی ایک واحد طریقہ ہے جس سے تم اپنی جان بچا سکتے ہو اورایرانیوں کیلئے امن بھی حاصل کر سکتے ہو۔ اگر تم عجم کی بھلائی چاہتے ہو تو یہی راستہ اختیار کرو گے، بیعت کرنا ہی واحد راستہ ہے۔ اللہ اکبر۔
خلیفۃالمسلمین عمر بن الخطاب

شاہوں کے شاہ، فارس اور بعید کے شاہ، کئی ملکوں کے شاہ، فارسی سلطنت کے شاہ، یزدگرد سوم کی جانب سے تازی (عربی) خلیفہ عمر بن خطاب کے نام

آہور مزدا کے نام، جو حیات و عقل کا خالق ہے تم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ تم ہمیں اپنے خدا، اللہ اکبر کی راہ پر لانا چاہتے ہو۔ جب کہ تمہیں علم نہیں کہ ہم کون ہیں اور کس کی عبادت کرتے ہیں. یہ بات حیران کن ہے کہ تم عربوں کے حاکم ہو لیکن تمہارا علم صحرا میں گھومنے والے ایک عرب دیہاتی اور صحرائی بدو کی طرح محدود ہے۔ حقیر انسان، تم مجھے خدائے واحد کی عبات کی ہدایت دے رہے ہو جب کہ تمہیں اس بات کا علم تک نہیں کہ ہزاروں سالوں سے ایرانی لوگ خدائے واحد کی عبات کر رہے ہیں، وہ پانچ دفعہ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ثقافت و فن سے بھرپور اس ملک میں یہ طریقہ سالوں سے رائج ہے۔ جب ہم نے مہمان نوازی کی روایات اور اچھے کردار کو دنیا میں رائج کیا، جب ہم اپنے ہاتھوں میں اچھے خیالات، اچھی گفتار، اور اچھے کردارکا پرچم لہرا رہے تھے، اس وقت تمہارے ابا و اجداد صحرا میں گھومتے تھے اور تمہارے پاس چھپکلیاں کھانے کے سوا کچھ نہ ہوا کرتا تھا۔ اور تم اپنی معصوم بچیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔

تازی(عربی) لوگوں کے پاس خدا کی پیدا کردہ مخلوق کیلئے کوئی اخلاقی قدریں نہیں ہیں۔ تم خدا کی مخلوق کے گلے کاٹتے ہو، حتیٰ کہ قیدیوں کو بھی معاف نہیں کرتے، عورتوں کی عصمت دری کرتے ہو، اپنے بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے ہو، قافلوں پر حملے کرتے ہو۔ قتل عام کرتے ہو، مردوں اور عورتوں کو اغوا کرتے ہو، ان کی جائیداد پر قبضہ کر لیتے ہو۔ تمہارا دل پتھر کا بنا ہوا ہے۔ ہم ان تمام برائیوں کی مذمت کرتے ہیں جن کا تم ارتکاب کرتے ہو۔

تم ایسی حرکات کے ارتکاب کے بعد ہمیں کس منہ سے خدائی راہ دکھانا چاہ رہے ہو۔ تم مجھے آگ کی عبادت ترک کرنے کا کہہ رہے ہو۔ ہم ایرانیوں کو آگ کی تپش اور سورج کی روشنی میں خالق کی محبت اور قوت دکھائی دیتی ہے۔ آگ اور سورج کی روشنی ہمیں سچائی کی روشنی دکھاتی ہے۔ اور ہمارے دلوں کو خدا سے محبت اور ایک دوسرے سے محبت کا درس دیتی ہے۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے بھلائی کرنا سکھاتی ہے۔ یہ ہمیں روشنی دیتی ہے اور ہمارے دلوں میں مزدا ( کی محبت) کا شعلہ جلائے رکھتی ہے۔ ہمارا خدا آہور مزدا ہے اور یہ بہت عجیب بات ہے کہ تم لوگوں نے ابھی ابھی خدا دریافت کیا اور اسے اللہ اکبر کا نام دے دیا ہے۔

لیکن ہم تم جیسے نہیں ہیں۔ ہم اور تم ایک سطح پر نہیں ہیں۔ ہم دوسرے انسانوں کی مدد کرتے ہیں، ہم انسانوں کے درمیان محبت بانٹتے ہیں، ہم پوری دنیا میں بھلائی پھیلاتے ہیں۔ ہم ہزاروں سالوں سے دوسری ثقافتوں کو عزت دیتے ہوئے اپنی ثقافت پھیلا رہے ہیں۔ لیکن تم اللہ کے نام پر دوسروں کی زمین پر حملے کرتے ہو، تم قتل عام کرتے ہو، اور دوسروں کیلئے قحط، غربت اور خوف کی فضا پیدا کرتے ہو۔ تم اس اللہ کے نام سے برائی پھیلاتے ہو، جو ان تمام تباہیوں کا ذمہ دار ہے کیا یہ اللہ ہے جو تمہیں قتل، لوٹ مار اور تباہی کا حکم دیتا ہے؟ کیا تم اللہ کے ماننے والے اس کے نام پر یہ سب کچھ کرتے ہو، یا یہ دونوں کی وجہ سے ہے۔ تم صحرا کی تپش سے اٹھے اور ہماری زرخیز زمینوں کا جلا کر راکھ کر دیا۔ تم اپنی عسکری مہمات اور تلوار کی قوت سے اللہ کی محبت سکھانے نکلے ہو! تم صحرائی وحشی ہو، ہم جیسے ہزاروں سالوں شہروں میں مقیم لوگوں کو تم خدا کی محبت سکھانے نکلے ہو! ہم ہزاروں سال پرانی طاقتور ثقافت کے امین ہیں جو ہماری طاقت کا سرچشمہ ہے۔

مجھے بتاؤ کہ اللہ اکبر کے نام سے شروع کرنے والی جنگی مہمات، بربریت، قتل اور لوٹ مار سے تم نے مسلمان لشکر کو کیا سکھایا ہے۔ تم نے مسلمانوں کو کونسا علم سکھایا ہے جو اب غیر مسلموں کو سکھانے پر اصرار کر رہے ہو۔ تم نے اللہ سے کونسی تہذیب سیکھی ہے جسے دوسروں کو زبردستی سکھانا چاہ رہے ہو؟ حیف، صد حیف، آج آہور مزدا کی ایرانی فوج تمہارے اللہ کو پوجنے والی فوج سے شکست کھا گئی۔ اب ہمارے لوگوں کو اسی خدا کی عبادت کرنا ہو گی، وہی دن میں پانچ بار عبادت کرنا ہو گی لیکن ایک ایسے خدا کی عبادت کرنا ہو گی جسے تلوار کے زور پر تسلیم کروایا گیا ہے۔ اللہ، اس کی عربی زبان میں عبادت کرو کیونکہ تمہارے اللہ کو صرف عربی آتی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ تم اور تمہارے لٹیرے اپنا سامان باندھیں اور واپس صحرا میں چلے جائیں جہاں وہ رہتے آئے ہیں۔ انہیں وہاں واپس لے جاؤ جہاں وہ دھوپ کی تپش میں جلتے، ایک قبائلی زندگی گزارتے، چھپکلیاں کھاتے اور اونٹنی کا دودھ پیا کرتے تھے۔

میں تمہیں اور تمہارے چوروں اور لٹیروں کے ٹولے کو کو کہتا ہوں کہ ہمارے زرخیز زمینوں، مہذب شہروں اور عظیم قوم کو چھوڑ دو۔ ہمارے مردوں کو قتل کرنے، ہماری عورتوں اور بچوں کو اغوا کرنے، ہماری بیویوں کی عصمت دری کرنے اور ہماری بیٹیوں کو باندیاں بنا کر مکہ بھیجنے کیلئے ان ان پتھر دل وحشیوں کو کھلا مت چھوڑو۔ اللہ اکبر کے نام پر انہیں ایسے جرائم کرنے کیلئے کھلا مت چھوڑو۔ اپنی مجرمانہ کاروائیاں بند کر دو آریا (قوم کے لوگ) معاف کرنے والئ، گرمجوش، مہمان نواز اور نفیس لوگ ہیں۔ اور یہ جہاں بھی گئے یہ اپنے ساتھ دوستی کے بیج، محبت، علم سچائی ساتھ لے کر گئے۔ اس لئے وہ تمہیں اور تمہارے لوگوں کو لوٹ مار اور مجرمانہ کاروائیوں کی سزا نہیں دیں گے۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم اپنے اللہ اکبر کے ساتھ اپنے صحراؤں میں رہو، اور ہمارے مہذب شہروں کا رخ نہ کرو۔ کیونکہ تمہاے عقائد بہت زیادہ خوفزدہ کرنے والے اور تمہارے اطوار بہت وحشیانہ ہیں

دستخط یزد گرد سوم “۔

عربوں کے حملے کے بعدزرتشتی انڈیا بھاگنے پر مجبور ہو گئے جہاں وہ اپنی کچھ کتابیں لے جانے میں کامیاب ہو گئے اور کچھ انہوں نے ہی اپنی یاداشت سے دوبارہ لکھیں۔ وہ ہزار سال سے زیادہ ایک بند تنہا گروہ کی طرح رہے اور کسی سے بھی اپنے عقائد شیئر نہیں کرتے تھے، تاآنکہ ایک فرانسیسی انکوتل دوپراں، جو برطانوی فوج میں بھرتی ہو چکا تھا، ان کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گیا، وہ پارسیوں کے ساتھ رہا اور ان کی مقدس کتابوں سے رسائی حاصل کر پایا۔ شروع میں اس کے کام کو قبولیت حاصل نہ ہوئی کیونکہ کوئی بھی یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ آریاؤں کا اتنا بڑا علمی خزانہ ایک فوجی حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہو گیا۔لیکن آہستہ آہستہ اس کے دعوے قبولیت حاصل کر گئے۔

زرتشتیوں کی ایک کتاب اردا ویراف نامہ ہے، جسے پہلوی زبان میں اردا ویراف نامک کہا جاتا ہے۔ بلکہ پہلوی میں اردا ویراف کا نام اردا ویراز ہے۔ پروفیسر چارلس ہورن کے مطابق یہ کتاب ساسانی دور یعنی 224۔651 عیسوی میں لکھی گئی۔ جب کہ کتاب کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب ساسانی دور کے آخر میں لکھی گئی، لیکن کچھ لوگوں کے مطابق اس کی آخری تدوین شدہ کتاب خسرو انوشیرواں کے زمانے یعنی چھٹی صدی عیسوی کے اواخر میں ہوئی۔ کیونکہ اس کتاب کی تفسیر میں لکھا ہوا ہے کہ ویراف اسی مشہور شاہ کے موبد کا بیٹا تھا۔ کچھ روایات کے مطابق یہ کتاب سکندر کے حملے کے بعد شاہ گشاسپ کے زمانے میں لکھی گئی۔لیکن کچھ کچھ محققین کے مطابق یہ کتاب دسویں یا گیارہویں صدی میں لکھی گئی۔ اور اس دعوے میں بھی سچائی ہو سکتی ہے کیونکہ زرتشتیوں کی کتابیں بار بار تباہ ہوئیں اور انہوں نے اسے یاداشت یا کسی پرانے محفوظ نسخے کی مدد سے دوبارہ لکھا۔

اردا ویراز نامہ جواردا ویراف نامہ کے نام سے جانی جاتی ہے، میانہ فارسی میں قبل از اسلام لکھی گئی کتاب ہے۔ اس میں اس کتاب کا مرکزی خیال اسلامی سے قبل ایرانیوں کے آخرت کے بارے میں عقائد ہے۔ویراف یا ویراز ساسانی عہد میں ایک موبد تھے جس میں انہوں نے موت کے بعد والی دوسری دنیا کے متعلق لکھا ہے۔ پارسی عقیدہ کے مطابق اردا ویراف ساسانی عہد کے ایک موبد تھے۔ اردا ویراف نامہ اردا کا معراج نامہ ہے۔ ڈانٹے نے اردا ویراف نامہ سے متاثر ہو کر ڈیوائن کامیڈی لکھی۔ ابوالعلاء معری کے رسالہ الغفران بھی اردا ویراف نامہ کے اثر سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ زرتشتی موبد اردا کی مانند ابوالعلاء معری کا عرب شاعر «ابن قارح» بھی آخرت کے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ «سیر العباد الی المعاد» نامی تصوراتی نظم بھی ساختی اور خیالی عناصر کے حوالے سے اردا ویراف سے متاثر ہوئی ہے۔

اردا ویراف نامہ زرتشتی کے مطابق جنت اور جہنم کی جامع تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ کتاب زرتشتی تاریخ کے اہم مصادر کی حیثیت کھتی ہے۔ کتاب ایک ایسے موبد کی کہانی ہے جو لوگوں کے زرتشتی مذہب سے بدگمان ہونے دور کرنے کے لیے دوسرے جہان کا سفر کرتاہے جہاں سات دنوں کے سفر پر اُسے جنت و دوزخ کے مناظر دکھائے جانے کے علاوہ اہور مزدا سے ملاقات بھی ہوتی ہے۔ وہاں سے واپس ہونے کے بعد وہ اپنے اس سفر کی روئیدار بیان کرتا ہے۔ اردا کو ایک مذہبی رسم کے تحت ایک مقدس مشروب پلایا جاتا ہے، جس کے تاثیر کے تحت وہ سات دن تک خواب کی حالت میں رہتا ہے اور جاگنے پر اپنا روحانی سفر کی تفصیلات بیان کرتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک خیالی کہانی ہے لیکن پھر بھی ہمیں اس سے زرتشتی عقائد کو جاننے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

کہانی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ زرتشتی مذہب پہلی تین صدیاں اصل حالت میں رہتا ہے لیکن کے بعد سکندر حملہ کرتا ہے اور بادشاہ کا محل تباہ کر دیتا ہے، اور سرکاری آرکائیو میں رکھی ہوئی کتابوں اور دستوروں اور صاحب علم لوگوں کو قتل کر دیتا ہے۔ اس سے ایران کا پورا سیاسی ڈھانچہ زوال پذیر ہو جاتا ہے، جنگیں شروع ہو جاتی ہیں اور زرتشتی مذہب کا زوال شروع ہو جاتا ہے، بہت سے عقائد اور فرقے پیدا ہو جاتے ہیں تا آنکہ ساسانی بادشاہ شاہ پور دوم کے دور میں آذرباد مہراسپندان پیدا ہوتا ہے جسے موبدان موبدکے طور پرجانا جاتا ہے، آذر اپنے چھاتی پر ابلتا ہوا پیتل ڈالتا ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا یوں وہ اپنے دین کی سچائی ثابت کرتا ہے لیکن پھر بھی زرتشتی مذہب کے خلاف تمام شکوک ختم نہیں ہوتے۔

چنانچہ دستور اپنے مذہب کی سچائی جاننے کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ مذہب کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں اور یوں وہ کسی کو زندوں کی دنیا سے مردوں کی دنیا میں بھیجنے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تاکہ وہ جان سکیں کہ اُن کی مذہبی پیشواؤں کی ادا کردہ رسوم کا کوئی تاثیر ہے بھی یا نہیں، اور اس کے لیے فروباگ کے آتشکدے میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ اصل کتاب میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ اُن میں سے ساتھ لوگ چنے جاتے ہیں، پھر اُن میں سے تین رہ جاتے ہیں اور آخرہ میں یہ قرعہ ویراف کے نام نکلتا ہے جسے نیشاپوری بھی کہتے ہیں۔ ویراف اسے قبول کر لیتا ہے، ویراف کی سات بہنیں جو اُس کی بیویاں بھی ہیں، واویلا کرتی آتی ہیں لیکن انہیں تسلی دے کر واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔

ابتدائی تیاریوں کے بعد ویراف کو شراب ملی بھنگ پلائی جاتی ہےاور وہ قالین پر سو جاتا ہے۔ اُن وقتوں میں آسمانی اجسام کی سیر کے لیے نشہ آور مشروب ہی پلائے جاتے تھے، چنانچہ ایک روایت کے مطابق زرتشت کا یہ بھی ایک معجزہ تھا کہ اُس نے شاہ گشتاسپ کو شراب کا ایک پیالہ، دودھ اور پھل دیئے جس سے گشتاسپ تین دن تک سویا رہا اور اس دوران اُس نے جنت و دوزخ کی سیر کی اور بہت سی آسمانی مخلوق سے سے ملاقات کی جس سے وہ بہت خوش ہوا۔

ساتوں دن جب ویراف بے ہوش پڑا ہوتا ہے تو اُس کی ساتوں بہنیں اور دستور اُس کے گرد کھڑے اوستا اور زند کی مناجات پڑھتے رہتے ہیں۔ ان دنوں میں ویراف سروش اور آذر ایزد ، جو آگ کا فرشتہ ہے، کے ہمراہ جنت و دوزخ دیکھتا ہے، جنت و دوزخ کو علیحدہ کرنے والے چینوت پل سے بھی گزرتا ہے۔ اس سفر میں اُس کا سامنا ایک خوبصور کنواری سے بھی ہوتا ہے جو نیک پندار، نیک گفتار اور نیک کردار کی نمائندہ ہے۔ چونکہ مرنے والے کی روح کے سامنے کنواری کا ظاہر ہونا پرانے زرتشتی عقائد کا حصہ ہے، لہذا ڈاکٹر ولف لیپزیگ کے خیال کے مطابق شائد یہی خوبصورت کنواری اسلامی عقائدمیں حور کے روپ میں سامنے آتی ہے اور اُنہوں نے اسے جنتیوں کی بیوی کے طور پر پیش کیا۔

اردا ویراف کے پرانے نسخے کے دیباچے میں یوں لکھا ہے: کہتے ہیں کہ جب اردشیر بابکان بادشاہ بنا تو اُس نے نوے پادشاہوں کو قتل کیا اور کچھ کے بقول چھیانوے بادشاہوں کو قتل کیا اور دنیا کو دشمنوں سے خالی کر دیا اور دنیا میں امن و امان قائم کر دیا۔ پھر اُس نے دستوروں اور موبدوں کی طرف رجوع کیا جو اُس وقت موجود تھے اوراُن سے کہا کہ زرتشت کی طرف سے ایزد تعالی کا دیا ہوا سچا دین مجھے نظر نہیں آ رہا۔ میں چاہتا ہوں کہ اُن سچے دعوؤں اور باتوں کو اکٹھا کر کے ایک عقیدے پر ایمان لاؤں۔

اور اُس نےلوگوں کو ہر طرف بھیجا کہ دنیا میں جہاں کوئی بھی دانا یا دستور ہے، اُسے میرےدربار میں لے کر آؤ۔ چنانچہ چالیس ہزارلوگوں کا جم غفیر دربار میں جمع ہو گیا۔پھر اُس نے کہا کہ ان میں سے جو دانا ترین ہیں، انہیں علیحدہ کیا جائے۔ چنانچہ اُن میں سے چار ہزار لوگ منتخب ہوئے اور بادشاہ کو خبر کی، بادشاہ نے کہا کہ دوسری بار احتیاط سےانتخاب کرو۔دوسری بار اُن میں سے پاکیزہ، عاقل اور اوستا اور زند کا علم رکھنے والے علیحدہ کیے گئے، اوستا اور زند کا علم رکھنے والے لوگوں کی تعداد چار سو تھی۔ ایک بار پھر احتیاط سے کام لیا گیا اور اُن میں سے چالیس لوگوں کو چنا گیا جنہیں اوستا اور زند پوری طرح یاد تھیں۔ اُن میں سات لوگ ایسے بھی تھے جنہوں اوائل عمر سے لے کر اُس دن تک کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ وہ بہت عظیم لوگ تھے،کردار کے حوالے سے پاکیزہ ہونے کے علاوہ اُن کے کان، دماغ اور دل ایزد سے بندھا ہوا تھا۔

ان ساتوں کو اردشیر بابکان کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے اُن سے کہا، دین کے متعلق جو شبہات اور بدگمانی پیدا ہو چکی ہے میں انہیں دور کرنا چاہتا ہوں کہ سب لوگ آہور مزد ا اور زرتشت کے دین پر ہوں اور دین کی باتیں پھیل سکیں۔ تاکہ مجھے اور سب علماء اور دانا لوگوں پر واضع ہو سکے کہ دین کیا ہے اور اس کے خلاف شکوک و بدگمانی دور ہو سکے۔

تب انہوں نے جواب دیا کہ اس بات کو کوئی بھی صحیح خبر نہیں دے سکتا ، سوائے ایک آدمی کے جس سے آٹھ سال کی اوائل عمر سے اب تک کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا، اور یہ آدمی ویراف ہے۔ کہ پاکیزگی،اخلاقی بصارت اور سچائی میں اُس سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اس معاملے کو اُس کے سپرد کرتے ہیں۔ اور ہم چھ لوگ کسی جگہ یزشن اورنیرنگ عبادت ادا کرتے ہیں جن کی ادائیگی دینی طور پر اور ایسے کاموں کے لیے مقرر ہوئی ہے۔ تاکہ ایزد عز وجل ویراف کو حقیقت سے آگاہ کرے اور اور ویراف ہمیں اس کی خبر دے گا۔ یوں ہر کوئی آہور مزد اور زرتشت کے دین سے بدگمانی سے نجات پا سکے۔ ا ویراف اپنے طور پر اس ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ اور شاہ اردشیر ان باتوں سے بہت خوش ہوا اور ۔ تب انہوں نے کہا، یہ تب تک درست نہیں ہو گا کہ جب تک ہم آذران کی درگاہ پر نہ جائیں۔

چنانچہ وہ اسی عزم کے ساتھ اٹھ کر چل پڑے۔ اس کے بعد اُن چھ آدمیوں نے، جو دستور تھے، آتش گاہ کے پاس یزشن‌ ادا کی۔ چالیس دستورو جو چالیس ہزار مردوں کے ساتھ درگاہ آئے تھے، اُن سب نے مل کر دوسری طرف یزشن ادا کی۔ اور ویراف نے اپنے سر اور بدن کو صاف کیا، اور سفید کپڑے پہنے، اور اپنے آپ کو ایک بہت ہی اچھی خوشبو لگائی گئی۔ اوروہ آگ کے سامنے کھڑا ہوا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔

ویراف کی سات بہنیں تھیں۔ جن انہیں ان تیاریوں کا علم ہوا تو ساتوں روتی اور بین کرتی ہوئی آئیں، اور کہا۔ ہم ساتوں پردہ دار گھر پر ہیں اور ہمارا اس کے سوا کوئی بھائی نہیں ہے۔ اور اسی پر ہمارا انحصار ہے۔ اب تم اُسے دوسری دنیا میں بھیج رہے ہو، اور ہمیں پتہ نہیں کہ ہم اُسے دوبارہ دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں۔ تم لوگ ہمیں غیر محفوظ چھوڑ دو گے، ہم ماں باپ کے بغیر ہیں اور تم اب ہمارے گھر سے ہمارا بھائی بھی لے جا رہے ہو۔ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گی، کیونکہ وہ ہمارا اکلوتا بھائی ہے۔ کسی اور کو منتخب کرو اور ہمارے بھائی کو ہمارے پاس رہنے دو۔

جب دستوروں نے یہ الفاظ سنے تو اُنہوں نے کہا کہ تم فکر نہ کرو، ہم سات دنوں کے بعد تمہیں ویراف صحیح سلامت واپس کریں گے۔ اور پھر اُنہوں نے قسم کھائی تو بہنیں مطمئن ہو گئیں اور واپس چلی گئیں۔ تب جنگی لباس میں ملبوس ، دوسرے سواروں کے ساتھ ، شہنشاہ اردر شیرنے آتشگاہ کی نگرانی کی ۔تاکہ اردا ویراف سے پوشیدہ دشمنی رکھنے والا کوئی لٹیرا یا منافق وہاں پہنچ کر وار نہ کر سکے اور اُس گزند نہ پہنچائے۔ اور بدی کی کوئی قوت عبادت کے یزشن‌ کی ادائیگی کے دوران اس عبادت کو باطل نہ کر دے۔

پھر آتشگاہ کے درمیان ایک تخت رکھ دیا گیا اور اُس پرصاف کپڑا بچھایا گیا۔ اور اردا ویراف تخت پر بیٹھ گیا اور اُس کا چہرہ کپڑے سے ڈھک دیا گیا۔ اور چالیس ہزار مردیزشن کے لیےفرش پر کھڑے ہو گئے۔ اور درونی پر پڑھا گیا، اور درونی کے ٹکڑوں پر مکھن لگایا گیا۔ جس سے تمام ٹکڑے پاک ہو گئے، پھر ویراف کا شراب کا نیک پندار (اچھی سوچیں) کے ساتھ ایک پیالہ دیا گیا، پھر اُسے نیک گفتار کے ساتھ ایک پیالہ دیا گیا، پھر اُسے نیک کردار کے ساتھ ایک پیالہ دیا گیا۔ تین پیالے پینے کے بعد ویراف کا سر گدے پر ایک دم سے ایک طرف ڈھلک گیا اور وہ سو گیا۔ سات شب و روز اُس جگہ پر یزشن ادا ہوتی رہی، وہ چھ دستور اردا کےسرہانے بیٹھے تھے اور باقی تینتیس برگزیدہ لوگ تخت کے گرد یزشن ادا کرتے رہے، اور اُن کے گرد باقی تین سو ساٹھ لوگ جو چنے گئے تھے، یزشن ادا کرتے رہے۔ اور وہ چھتیس ہزار لوگ آتشگاہ کے گنبد کے گرد یزشن ادا کر رہے تھے۔

اور جنگی لباس میں ملبوس شہنشاہ ، گھوڑے پرسوار، دوسرے جنگوؤں کے ساتھ مل کر گنبد کے باہر پہرہ دے رہا تھا، کہ ہوا بھی اندرنہیں جا سکتی تھی۔ اور جہاں جہاں بھی لوگ بیٹھے یزشن ادا کر رہے تھے ، اُن کے گرد جنگی لباس میں ملبوس، ہاتھ میں ننگی تلوار لیے لوگ کھڑے تھے۔یہ عبادت گزار بیٹھے ہوئے تھے اُن کے گرد شمشیر بردار مسلح لوگ کھڑے تھے۔ چنانچہ سپاہی ہر جگہ تھے اور کوئی اُن کے اندر گھل مل نہیں جا سکتا تھا۔ اور جہاں پر ویراف کا تخت پڑا ہوا تھا، اُس کے گرد پیادہ مسلح لوگ گھیرا ڈالے ہوئے تھے، اور سوائے اُن چھ دستوروں کے کسےاور کے اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔شہنشاہ اندر آیا اور باہر چلا گیا ، اور آتشکدے کی نگرانی کرتا رہا ،اور اپنی ذمہ داری نبھائی۔ اُس نے ساتوں دن ویراف کی نگرانی کی۔

سات دنوں اور راتوں کے بعد ویراف میں جنبش ہوئی اور وہ زندہ ہو کر بیٹھ گیا۔لوگوں اور دستوروں نے جب ویراف کو نیند سے واپس آتے دیکھا تو وہ سب بہت خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں وصول کرنے لگ گئے، اور کھڑے ہو کر وہ ویراف کے سامنے جھک گئے اور کہا: ”خوش آمدید، اردو ویراف، دوبارہ یاد کرو کہ کونسا جہان مقدس ہے، تم کیسے واپس آئے، تم پر وہاں کیا بیتی، تم نے وہاں کیا دیکھا، ہمیں بھی بتاؤ تاکہ ہم جان سکیں کہ دوسرا جہان کیسا ہے؟۔
اردا ویراف نے کہا کہ پہلے کچھ لے کر آؤ کہ میں کھا سکوں، کیونکہ اسے گزرے سات دن اور سات راتیں ہو چکی ہیں، اور مجھے بھوک لگی ہے۔اس کے بعد جو چاہے پوچھوکہ میں تمہیں بتا سکوں۔

دستوروں نے ایک دم سے درونی روٹی کو پاک کیا ، اور اردا ویراف نے وقار کے ساتھ کچھ زیر لب کہا اور پانی کے ساتھ تھوڑا سا کھایا اور شکر ادا کیا۔

پھر اُس نے کہا کہ کسی ماہرلکھنے والے کو بلاؤ، تاکہ میں اُسے بتا سکوں کہ میں نے کیا دیکھا ہے، اور تم اسے جلدی سے دنیا میں پھیلا سکو تاکہ روحانی معاملات اور جنت و دوزخ کے متعلق علم سب تک پہنچ سکے تاکہ وہ نیک کاموں کے فوائد کےمتعلق جان سکیں اور برائی کے کاموں سے اجتناب کریں۔ تب انہوں نے ایک ماہر لکھنے والے کو بلایا ، اور وہ اردا ویراف کے سامنے بیٹھ گیا۔

2 Comments