توہین رسالت کا الزام۔2

محمد شعیب عادل

تھانہ ریس کورس پہنچتے پہنچتے حسن معاویہ کے ساتھیوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ تھانے پہنچ کر صرف حسن معاویہ اور اس کے دو ساتھیوں کو اندر آنے دیا گیا باقی باہر کھڑے ہوگئے اور میرے خلاف نعرے لگانے لگے۔ ایس ایچ او نے کہ ڈی ایس پی صاحب کو مطلع کر دیا گیا ہے وہ پہنچنے والے ہیں اور وہ پہلے تفتیش کریں گے۔یہ سن کر حسن معاویہ نےآگے بڑھ کر مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی مگر پولیس والوں نے اسے روک دیا۔ اور مجھے ڈی ایس پی کے کمرے میں بٹھا دیا اور حسن معاویہ باہر بنچ پر بیٹھ گیا۔

دس پندرہ منٹ میں ڈی ایس پی آگئے اور بیٹھتے ہی پوچھنے لگے کہ کتاب آپ نے شائع کی ہے میں نے کہا جی۔ ایس ایچ او نے کتاب کا کوئی صفحہ کھولا جس پر کچھ سطریں ہائی لائٹ کی ہوئی تھیں اور ڈی ایس پی کے سامنے رکھی کہ ان پر الزام ہے کہ یہ احمدیت کی تبلیغ کررہے ہیں۔ انھوں نے سطریں پڑھیں اور کتاب دیکھنے لگے میں نے کہا مجھے بھی دکھائیں ۔ انھوں نے کتاب میرے آگے کی ۔ یہ کتاب کا پہلا باب تھا جس میں مصنف محمد اسلام بھٹی نے اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق لکھا تھا کہ وہ کہاں پیدا ہوئے ان کے والد کون تھے، وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کن باتوں سے متاثر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ پانچ چھ لائنوں کے ایک پیرے کو بنیاد بنا کر میرے خلاف 295 سی کا پرچہ درجہ کرنے کو کہہ رہے تھے۔

میں نے کہا اس میں تو توہین کی کوئی بات نہیں۔ وہ مسکرا دیئے اور بولے مولویوں کے مطابق تو توہین ہے۔ابھی ڈی ایس پی مجھ سے بات کر ہی رہے ہیں کہ انھیں کوئی فون آگیا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ میرے سامنے ہی بیٹھے ہیں اور میں پوچھ گچھ کر رہا ہوں۔ خیر فون بند کرنے کے بعد وہ پھر مجھ سےکچھ پوچھنے لگے، ایس ایچ او کچھ بیان کرنے لگا کہ پھر کوئی فون آگیا ۔ ڈی ایس پی نے دوبارہ مجھے دیکھا اور کہا کہ میرے سامنے بیٹھے ہیں ابھی بات کر رہا ہوں۔۔۔ فون بندکرنے کے بعد انھوں نے ایس ایچ او کو کہا کہ مجھے اوپر کمرے میں بٹھا دو، میں دیکھتا ہوں کیا کرنا ہے۔خیر پولیس نے مجھے دوسری منزل پر موجود ایک کمرے میں بٹھا دیا ۔ وہاں دھری ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔

شدید ذہنی پریشانی کا شکار تھا۔ خیر پولیس نے فون مجھ سے نہ لیا میں نے شعیب بن عزیز کو فون کیا اور انھیں مسئلہ بتایا تو انھوں نے صاف جواب دے دیا کہ یہ میرے بس کا مسئلہ نہیں۔ پھر امتیاز عالم کو فون کرنے کی کوشش کی وہ بند ملا۔ انجم رشید کو فون کیا تو کہنے لگے کہ امتیاز امریکہ میں ہیں اور طاہر اشرفی انگلینڈ ہے بہرحال میں انھیں فون کرکے بتاتا ہوں۔ ایک دو عزیزوں کو فون کیا انھوں نے کہا کہ ہم تھانے پہنچ رہےہیں۔

امیتاز عالم نے لندن میں طاہر اشرفی کو فون کیا جو کسی نام نہاد لیفٹسٹ لارڈ پاشا کے پاس بیٹھا مے نوشی میں مصروف تھا کہنے لگا کہ میرا بھائی پر کوئی کنٹرول نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا۔ خیر یہ امید بھی ختم ہوگئی۔ اب میں پریشان بیٹھا ہوں تین، چار پانچ گھنٹے گذر گئے مجھے نہیں علم تھا کہ نیچے کیا ہورہا ہے۔ ایک دو پولیس والے آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے کیا جرم کیا ہے ؟ باہر لوگ تمھارے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ میں نے کہا مجھے خود پتہ نہیں ۔ مجھے اب اس سے ڈر لگنا شروع ہو گیا کہ کہیں یہی نہ مجھے مار دے۔ میں سوچنے لگا کہ اب میرا انجام بھی جنید حفیظ سے شاید مختلف نہ ہو۔ توہین مذہب کے الزام میں یہ مجھے قید کر دیں گے اور پھر کئی سال تک مقدمہ چلے گا اور میں جیل میں قید تنہائی کا شکار ہوں گا اور کوئی پتہ نہیں کوئی جیل میں ہی نہ مجھے مار دے۔۔۔ بہرحال کئی قسم کے خیالات نے گھیرا ڈالے رکھا۔

رات بارہ بجے کے قریب ایک صحافی عزیز، حسن معاویہ کے ساتھ اوپر کمرے میں آئے اور مجھے کہنے لگے کہ حسن معاویہ کہتا ہے کہ تممھارے دفتر میں قادیانیوں کا آنا جانا رہتا تھا تم کسی ایک کا نام لگا دو یہ تمھارے خلاف دی گئی درخواست واپس لے لے گا۔ میں نے کہا کہ میرے دفتر میں بے شمار لوگ آتے ہیں مجھے ان کے عقیدوں کا تو پتہ نہیں۔ کتاب کے سلسلے میں محمد اسلام بھٹی خود آئے تھے اور مجھ سے کتاب چھپوانے کا معاہدہ کیا تھا اس کے علاوہ میں کسی کو جانتا نہیں۔ حسن معاویہ نے کہا کہ مرزا طاہر احمد کا نام لگا دو۔ میں نے کہا میں اسے جانتا تک نہیں ۔ حسن معاویہ نے کہا اس کا نام کتاب پر شائع ہوا ہے۔

مرزا طاہر احمد شاید احمدی مبلغ تھا، جس نے بھٹی صاحب کی کتاب کی ایڈیٹنگ وزبان کی درستگی کی تھی اور بطور معاون اس کا نام کتاب میں چھپا ہوا تھا۔ میری ذہنی حالت خراب ہورہی ہے۔ کبھی میں سوچتا کہ مرزا طاہر احمد کا نام لگا دوں لیکن میرا ذہن ایسی کسی بات پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔ عجیب سی ذہنی صورتحال تھی کہ اتنے میں معاویہ بولا اس نے نہیں ماننا اور یہ کہہ کر نیچے چلاگیا اوردوسرے لوگ بھی چلے گئے۔ اب میں پھر انتہائی شدید پریشانی کے عالم میں تھا۔ کچھ دوستوں سے رابطہ کیا کچھ نے فون اٹھا لیا کچھ نے نہیں۔ اتنی اطلاع ملی کہ تھانے کے باہر ہجوم کافی ہے سو سوا سو یا ڈیڑھ سو بندہ کھڑا ہے۔

رات ایک یا دو بجے کے قریب انجم رشید کا فون آیا اور مجھے مبارک دی کہ تم رہا ہوگئے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ میں بدستور تھانے میں ہی ہوں باہر پولیس والا کھڑا ہے جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے جھانک کر دیکھ لیتا ہے ۔ میں اس وقت خوش ہوں گا جب میں تھانے سے باہر نکلوں گا۔

نیند مجھ سے کوسوں دور تھی ۔ سوچتے سوچتے فجر کی اذانیں شروع ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک سپاہی اندر آیا اور اس نے کہا تم اسے(ایک عزیز کا نام لے کر)فون کرو وہ تمھیں باغ جناح سے اٹھا لے۔ سپاہی مجھے نیچے لایا اور ایک موبائل میں بٹھا یا ساتھ تین چار سپاہی تھے اور تھانے سے باہر نکل کر مطلوبہ جگہ لے گئے جہاں میرے عزیز گاڑی میں انتظار کر رہے تھے ۔ پولیس نے مجھے ان کے حوالے کیا ۔ میں گھر پہنچا اپنی فیملی سے ملا جو خود ساری رات پریشانی میں سوئے نہیں تھے۔ میرا کپڑوں کا بیگ تیار تھا اور مجھے ایک دوسرے شہر جانے والی کوچ میں بٹھا دیا۔

بعد میں مجھے پتہ چلا کہ صحافی عزیزوں اور چند سینئر صحافیوں نے کئی گھنٹے تک پولیس سے مذاکرات کیے ،اس دوران اعلیٰ سرکاری افسروں سے سفارش بھی  کروائی گئی اور یہ طے پایا کہ ہم کیس درج نہیں کریں گے، اسے اس وقت چھوڑ دیں گے جب تھانے کے باہر سے ہجوم ختم ہو گا اور سب لوگ چلے جائیں گے۔ اور صبح فجر کے وقت جب وہاں موجود چند افراد بھی تھک کر چلے گئے تو مجھے تھانے سے نکال دیا۔ پولیس نے کہا کہ اب تم انڈر گراؤنڈ ہوجاؤ۔ اب تو ہم نے تمھیں چھوڑ دیا ہے۔ آئندہ قابو آگئے تو ہم چھوڑ نہیں سکیں گے اور دوسری ہدایت کی کہ ہیرو بننے کی کوشش نہ کرنا نہ ہی پریس کو بتانا اور نہ ہی انسانی حقوق کے اداروں کو۔ مولوی غصے میں ہیں ، یہ ادارے تو بیان جاری کردیں گے مگر تمھاری جان خطرے میں رہے گی۔

پولیس چھوڑنا چاہے تو اس کے پاس ایک سو ایک طریقے ہیں اور ملوث کرنا چاہے بھی تواتنے ہی طریقے ہیں۔ رات گئے مذاکرات میں حسن معاویہ کو کہا کہ تم پوری درخواست لکھو اور  وضاحت سے بتاو کہ میں نے  توہین مذہب کا جرم  کیسے کیاہے۔ تمھاری درخواست محکمہ اوقاف کو بھیجیں گے اوروہ اس پر اپنے رائے د ے گا کہ واقعی یہ توہین مذہب ہے تو ہم کیس درج کر لیں گے۔ بندہ ہمارے پاس ہی رہے گا۔۔۔

کہانی ابھی جاری ہے۔۔۔۔

تیسری قسط

توہین رسالت کا الزام

دوسری قسط

نیا زمانہ کی کہانی

پہلی قسط

کچھ ذکر حامد میرکا