مایوسی کے سائے میں امید کی ایک کرن؟

بیرسٹر حمید باشانی

خبر اچھی ہے یا بری  ؟ یہ جاننے کے لیے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔  مگر یہ ایک بڑی اوراہم خبر ہے، جسے میڈیا میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔  خبر یہ ہے کہ کئی ممتاز قانون دانوں کی رائے کے برعکس بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370کے خاتمے کے سوال پر ایک پانچ رکنی بنچ کا اعلان کر دیا ہے۔  یہ بنچ یکم اکتوبر سے اس کیس کی سماعت شروع کردے گا۔

 میری اس موضوع پر چند ایک ممتاز وکیلوں اور قانون کے پروفیسروں سے تفصیلی تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ وہ سب اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ اس مقدمے کی سماعت اور فیصلہ ہونے تک کم از کم تین سال تک لگ جائیں گے، اور اس وقت تک حالات اتنے بدل چکے ہوں گے کہ یہ ایک بھولہ بسرا قصہ بن چکا ہو گا۔ آئینی مقدمات اور آئینی بنچوں کی کار کردگی پر گہری نظر رکھنے والے واے وائس چانسلر اور قانون کے پروفیسرفیضان مصطفی کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس بے شمار آئینی پٹیشنز پڑی ہوئی ہیں، اور اس کیس کی سماعت پر طویل وقت لگے گا۔

 مگر ان سارے اندازوں اور تجزیوں کے بر عکس سپریم کورٹ نے پنچ بھی بنا دیا اور سماعت کی فوری تاریخ بھی مقرر کر دی۔ اس کی غالباً چاربڑی وجوہات تھیں۔

  ایک وجہ یہ ہے کہ اس پٹیشن کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کا سوال بھی ایک بڑے سوال کے طور پرجڑا ہوا ہے۔  یہ فوری نوعیت کا سوال ہے، جس کا زیادہ عرصے تک التوانصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔

 دوسری وجہ یہ ہے  جموں و کشمیر کے انتظام نو کے  نئےایکٹ 2019 کے  اطلاق  کے لیے 31 اکتوبر کی تاریخ مقرر ہے، جس میں اب صرف چند ہفتے رہ گئے ہیں۔

 تیسرا یہ کہ اس فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے وہ غیر معمولی ہے، اور حکومت پر وسیع پیمانے پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔  سری نگر شہر محصور ہے۔  لوگ گھروں میں بند ہیں۔  شہر پر کرفیو ہے۔  کر فیو اٹھنے پر خون خرابے کا اندیشہ ہے۔  ان حالات کے پیش نظر بھارتی سپریم کورٹ کے لیے اس معاملے کو التوا میں رکھنا شاید ممکن نہیں تھا؛ چنانچہ بنچ مقرر ہو گیا ہے۔

اب بڑا سوال یہ ہے کہ یہ آئینی بنچ کیا فیصلہ کرے گا۔  اس بات پر بھی بھارت کے قانونی ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔  کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ ملک میں منتخب حکومت کی موجودگی میں عموما بھارتی عدالتیں حکومت کے خلاف فیصلہ دینے یا ان کے کسی فیصلے کو رد کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت نہ صرف بھاری اکثریت سے منتخب ہوئی ہے، بلکہ اس نے اپنے فیصلے کو پارلیمنت کے دونوں ایوانوں کی واضح اکثریت سے منظور کروایا ہے۔  

پارلیمنٹ کے کسی فیصلے کے خلاف عموما جج فیصلہ نہیں کرتے، مگر بھارتی عدالتوں کی تاریخ میں ایسے فیصلے بھی موجود ہیں، جن میں پارلیمنٹ کے فیصلوں کو رد کر دیا گیا۔ ان میں گولک ناتھ بنام ریاست پنجابایک مشہور مقدمہ ہے۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ پارلیمنٹ کو کوئی ایسا قانون نہیں بنانا چاہیے جو ان بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہو جوبھارتی آئین کے تحت لوگوں کو حاصل ہیں۔ اس فیصلے  کےخلاف آئین میں24 ویں ترمیم لائی گئی تھی، مگر یہ فیصلہ بحال ہوا اور اس کا کیساوندہ بھارتی کیس میں اطلاق کیا گیا۔

 دوسری دلیل یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام میں پارلیمنٹ کی منظوری کے علاوہ صدارتی حکم نامہ بھی شامل ہے، تاریخی اعتبار سے سپریم کورٹ عموماً صدارتی حکم ناموں کو قانونی قرار دیتی رہی ہے۔ ماضی میں کئی بار اس صدارتی حکم کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا،  جس کے تحت دفعہ 370 آئین کا حصہ بنایا گیا تھا، اور دفعہ 370کو غیر آئینی قرار دینے کی کئی بار درخواست کی گئی، مگر عدالتوں نے ہر بار اس صدارتی حکم نامے کو درست قرار دیا۔

مگر اگر عدالتی تاریخ کو گہرائی سے دیکھا جائے تو تو کچھ ایسی استشنائیں بھی موجود ہیں ، جب سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامے کو رد کر دیا۔ اس کی ایک مثال مہادیو جیواجی بنام یونین آف انڈیاہے۔ یہ کیس سابق شاہی ریاستوں کے راجوں اور مہاراجوں کے اعزازات اور مراعات کے بارے میں تھا، اس کیس میں عدالت نے صدارتی حکم نامے کو رد کر دیا تھا جس کی وجہ سے راجوں مہاراجوں کی مراعات کا خاتمہ ہوا۔

عدالتی تاریخ میں میرے خیال میں سب سے اہم ترین مقدمہ کیساوندہ بھارتی بنام ریاست کیرالہہے۔ اس کیس مین تیرہ رکنی آئینی بنچ بنایا گیا تھا، جو بھارتی عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا بنچ تھا۔ اس مقدمے میں سپریم کورت نے  یہ واضح کیا تھا کہ بھارتی پارلیمنٹ کو آئین کے کسی بھی حصے میں تبدیلی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ بات بھی بہت وضاحت سے بیان کر دی تھی کہ آئیِن میں کی جانے والی کوئی بھی ترمیم ان بنیادی حقوق کے خلاف نہ ہو، جو بھارتی آئین میں درج ہیں۔ یہ مقدمہ بنیادی انسانی حقوق کے کیس کے نام سے مشہور ہے۔

اس باب میں بہت مشہور کیس جو زبان زد عام ہے وہ ہے اندرا گاندھی بنام راج نرائِن ۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل انتالیس کی زیلی کلاز چار میں تبدیلی کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا، چونکہ یہ آئین کے آرٹیکل چودہ میں درج مساوی حقوق کے خلاف تھی۔ اس سلسلے میں جبل پور بنام شکلا کیس بھی اہم ہے۔ اس سماعت کے دوران ایک مشہور مقدمہ مانیکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا بھی بہت اہم ہے۔

اس مقدمے مین اظہار رائے کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی اور شخصی آزادی جیسے معاملات  پر فیصلہ ہوا تھا، جو اس وقت کشمیر کے تناظر میں زیر بحث ہیں، اور زیر سماعت پیٹیشنز کا نقطہ ماسکہ ہیں۔  جو کیس عدالت میں زیر سماعت ہو اس کے فیصلے کے بارے میں حتمی رائے دینا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ چونکہ کیس کے فیصلے کا دارمدارکئی چیزوں پر ہوتا ہے، جن کے بارے میں پیشگی علم کسی کو نہیں ہوتا۔ اس میں ایک اہم عنصر وکلا کے دلائل اور بحث ہے۔ چنانچہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وکلا اپنا کیس کیسے پیش کرتے ہیں۔

مگر محتاط انداز میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اگر جج اس کیس کو انسانی حقوق کے کیس کے طور پر لیں تو اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ یہ فیصلہ درخواست گزاروں اور کشمیریوں کے حق میں آ جائے۔ یہ راستہ اختیار کرنے سے جج یہ دلیل مان سکتے ہیں کہ حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں کیوکہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔  

مگر دوسری طرف ٘مسئلہ یہ ہے کہ آرٹیکل370 کے تحت بھارتی آئین کی بنیادی انسانی حقوق سے متعلق تمام دفعات کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا تھا،  لہذا سرکاری وکیل اس کے خلاف اس لائن پر دلائل دے سکتے ہیں۔  آڑٹیکل370کے خاتمے کو لیکر کئی پٹیشنز سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔ ان سب پیٹیشنز کو پانچ رکنی آئینی بنچ کو ریفر کر دیا گیا ہے۔ ان پیٹِشن میں ایڈوکیٹ ایل کے شرما، شہلا رشید، فیصل مجید اور اور نیشنل کانفرنس کی پٹِشن شامل ہیں۔

نیشنل کانفرنس کی پٹیشن فائل کرنے والوں میں ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس حسنین معسودی بھی شامل ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جسٹس معسودی خود 2015 میں یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ آرٹیکل 370آئین کا مستقل حصہ ہے۔ ان مختلف قسم کی پٹیشنز میں اس کیس کو الگ الگ زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے امکانات بھی موجود ہیں کہ آئینی  بنچ کی طرف سے ایک ملا جلا اور درمیانہ فیصلہ بھی آ سکتا ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کشمیریوں کے حق میں اور انتظامی اقدامات کے حوالے سے حکومت کے حق میں ہو۔

چنانچہ اس کیس کے فیصلے کا دارمدار اس بات پر ہے کہ عدالت کیا روٹ اختیار کرتی ہے۔ اگر درخواست گزاروں کے وکلا عدالت کو انسانی حقوق کے روٹ پر لی جاتے ہیں تو عدالت حکومتی اقدامات کو غیر آئینی قرار دیکر رد بھی کر سکتی ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو یہ کیس بھارتی سپریم کورٹ کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔  اور کیس کی فوری سماعت  بذات خود گھٹاٹوپ اندھیارے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔


Comments are closed.