قصہ ترقی پسندوں کی جانب سے توہین مذہب کا الزام لگانا

محمد شعیب عادل

بنیاد پرست تو توہین مذہب کے قانون کو اپنے مخالفین سے بدلے چکانے کے لیے استعمال تو کرتے ہیں لیکن پروگریسو رائٹرز کی طرف سے اس قانون کے استعمال کی انوکھی مثال بھی ہے۔

جاوید اختر بھٹی نیا زمانہ کے مستقل لکھاریوں میں سے تھے۔ وہ ملتان کی مشہور و معروف علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ میرا جب بھی ملتان جانا ہوتا ان کے ہاں ہی قیام ہوتا۔ ان کے گھر میں ایک وسیع لائبریری ہے اور ملتان کے سیاسی کارکن، ادیب ، شاعر اور لکھاریوں کا ہر وقت آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کئی مرتب کی ہیں ۔ مقامی اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ ایک وقت میں اپنا ادبی رسالہ’’انشعاب‘‘ کے نام سے بھی نکالتے رہے ہیں۔ انھوں نے نیا زمانہ کو نہ صرف ملتان میں متعارف کرایا بلکہ میرا تعارف ملتان کی کئی ادبی و سیاسی شخصیات سے کروایا۔

ایک دفعہ انھوں نے مجھے کہا کہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ایک لکھاری ڈاکٹر عباس برمانی ہیں وہ آپ کا میگزین پڑھتے رہتے ہیں اور اس کے نمائندہ بننا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ عباس صاحب نے اپنی تصویر اور شناختی کارڈ کی کاپی بھیجی اور انھیں نمائندے کا کارڈ جاری کر دیا گیا ۔ کئی ماہ تک ان کا نام میگزین میں بطور نمائندہ ڈیرہ غازی خان شائع ہوتا رہا۔شاید ایک آدھ بار کوئی تحریر بھی بھیجی تھی۔

اب ملتان میں ادبی گروہ بندیاں بھی ہیں ۔ ان کی آپس میں نوک جھونک ہوتی رہتی اور کبھی یہ زیادہ ہوجاتی۔ ایک دن میرے ایک دوست نے جہادی تنظیم کے ایک اخبار ہفت روزہ ’’ غزوہ‘‘ (14تا 20 جولائی 2006) کا تراشہ بھیجا جس میں ڈاکٹر عباس برمانی کا درج ذیل ایک خط شائع ہوا تھا۔خط کا متن ملاحظہ کریں

قادیانیوں کے بارے میں ایک چشم کشا خط

برادرانِ اسلام، السلام علیکم

یہ نامہ میں آپ کی خدمت میں آپ کو اور پاکستان کی جملہ ملت اسلامیہ کو ایک فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے ارسال کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ میں نے اس فتنے کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں ایک سفرنامہ نگار اور فری لانس جرنلسٹ ہوں، مختلف اخبارات میں مضامین لکھتا ہوں، چھ سات ماہ قبل ملتان سے میرے ایک جاننے والے محترم جاوید اختر بھٹی صاحب نے جوافسانے لکھتے ہیں اور پرانی کتابیں دوبارہ شائع کرتے ہیں مجھے لاہور سے نکلنے والاایک رسالہ”نیا زمانہ” دیا اور بتایا کہ یہ ایک ترقی پسند اور سامراج دشمن سوچ رکھنے والا رسالہ ہے۔ انہوں نے مجھے رسالے میں مضامین لکھنے اور ڈیرہ غازی خان میں اس کی نمائندگی کی دعوت دی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ اس رسالے کے جنوبی پنجاب کے سرکل چیف ہیں ان کے کہنے پر میں نے مذکورہ رسالے میں مضامین لکھنے شروع کر دیئے ۔ رسالے کا باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ کیا تو اس میں بہت سی قابل اعتراض چیزیں پائیں۔اس میں قادیانیوں کے حق میں باقاعدگی کے ساتھ مضامیں شایع ہوتے تھے۔ قادیانیوں کی عبادت گاہوں کا مساجد اور دھماکے میں (ہلاک) ہونے والے قادیانیوں کو شہید لکھا جاتا تھا۔ رسالے کے باقاعدہ لکھنے والے محترم جاوید اختر بھٹی، ڈاکٹر پرویز پروازی ، سید نصیر شاہ مسلسل اس قسم کی تحریریں لکھتے رہے ہیں جن سے مفکر پاکستان حضرت اقبال کو مرزائی ثابت کیا جا سکے۔

مرزا قادیانی کے نام نہاد خلفا کا کشمیر کاز کا سب سے بڑا چیمپین دکھایا جا سکےاور سامراج دشمن پالیسی کی آڑ میں اسلام کی جڑیں کاٹی جا سکیں۔ میں نے بھی اس رسالے میں اس کی سامراج دشمن پالیسی کے دعوے کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید ناموس رسال عامر چیمہ کے حوالے سے ایک مضمون لکھا تو اسے نہ صرف چھاپنے سے انکار کر دیا گیا بلکہ مدیر محترم نے فون پرمجھے کہا کہ میرے اندر ایک خوفناک قسم کا اسلامی بنیاد پرست چھپا ہوا ہے۔

چنانچہ میں نے اس رسالے سے قطع تعلق کر لیا۔گزشتہ دو ماہ سے میرا قادیانیوں کے ا س ترجمان سے کوئی واسطہ نہیں جن حضرات نے میرے حوالے سے رسالہ منگوانا شروع کیا تھا جب انہوں نے رسالہ منگوانا بند کردیا تو جنوبی پنجاب کے سرکل چیف جاوید اختر بھٹی نے میرے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ شروع کر دیا۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ اس خط کو شائع کرکے میری لاتعلقی کا اعلان اور عدم واقفیت کے نتیجے میں ہونے والی فروگزاشت کی معذرت ملک کی ملت مسلمہ کے سامنے لانے میں میری مدد فرمائیں اور خود بھی تحقیق کرکے اس فتنے کے بارے یں عوام کو آگاہ کیجئے۔

اس رسالے کو فنڈز شیزان گروپ اور جماعت احمدیہ فراہم کرتی ہے۔ برادران اسلام ایک ترقی پسند اورلبرل سوچ رکھنے والا انسان رہاہوں۔ اگرچہ الحاد، کمیونزم اور مادر پدر آزادی کے خلاف رہا ہوں میں نے بہت سے ترقی پسندوں کو قریب سے دیکھا ہے ان کی تحریریں پڑھی ہیں یہ لوگ اگرچہ خود کو سامراج دشمن کہتے ہیں لیکن اندر سے یہ سب سامراج کے دلدادہ ہیں۔ ان کے بڑے بش کی نظر عنایت کے منتظر رہتے ہیں۔ ان کی سامراج دشمنی کے دوہرے معیار ہیں ایک طرف تو افغانستان ، عراق اور افغانستان پر امریکی یہودی حملے کی مذمت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ابو معصب الزرقاوی جیسے عظیم مجاہد کی شہادت پر جشن مناتے ہیں ۔

خدائے ذوالجلال ہمیں اس نام نہاد ترقی پسندی اور لبرل ازم سے محفوظ رکھے۔ آمین اخوکم فی الاسلام

ڈاکٹر محمد عباس برمانی

میں نے فوری طور پر جاوید بھٹی صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا تو وہ بھی پریشان ہوئے کہنے لگے کہ ملتان میں ایک گروہ نے میرے خلاف مہم چلا رکھی ہے اور شاید روزنامہ اسلام میں بھی اسی قسم کے خط اور خبریں شائع ہوئی ہیں۔اور یہ حضرات مختلف ناموں سے پمفلٹ لکھ کر ڈاک کے ذریعے مختلف شخصیات اور اداروں کو بھی بھیج رہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے جاوید اختر بھٹی کبھی بھی نیا زمانہ کے سرکل چیف نہیں رہے تھے ان کا نیا زمانہ سے تعلق ایک لکھاری کے طور پر تھا ان کی تحریر سیاسی سے زیادہ ادبی ہوتی اور نیا زمانہ کےساتھ ساتھ مقامی اخبارات میں بھی شائع ہوتی۔ دوسری بات یہ موصوف کی کبھی بھی مجھ سے ٹیلی فون پر کوئی بات نہ ہوئی تھی۔

ایک بنیاد پرست معاشرے میں قادیانیوں کا ساتھی قرار دینا اور توہین مذہب کے ارتکاب جیسے الزامات لگانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اب آپ کی جان کو خطرہ ہے آپ کسی بھی اندھی گولی کا نشانہ بن سکتے ہیں یا پھر عوامی ہجوم اس کا فیصلہ کرتا ہے۔ میں بھی پریشان اور بھٹی صاحب بھی ۔ اب مجھے خوف کہ ڈاکٹر عباس برمانی نے تیلی لگا دی ہے تو کوئی پتہ نہیں اس کافیصلہ ہجوم کرے۔

بہرحال جاوید اختر بھٹی صاحب کے دوستوں نے اس معاملے کو رفع دفع کروایا۔ مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ بھٹی صاحب کے خلاف مہم میں ایک اور لیکچرر بھی تھے ، جو کہ انجمن ترقی پسند منصفین کے اولین میگزین ’’انگارے ‘‘کے نام پر آن لائن میگزین بھی نکالتے ہیں۔ جاوید اختر بھٹی کافی عرصہ تک سجاول کے نام سے مضامین لکھتے رہے۔اور پھر لکھنا ہی چھوڑ دیا۔

اس خط کی تحریر کو پڑھ کر مجھے عطاالحق قاسمی کی وہ تحریریں یاد آگئیں جو وہ ستر اور اسی کی دہائی میں ترقی پسند ادیبوں و شاعروں کے خلاف نوائے وقت میں لکھتے تھے۔ اس خط کو چودہ سال گذر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عباس برمانی جنوبی پنجاب کی ایک اہم ادبی شخصیت بن چکے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ دس پندرہ سال بعد ان کے قصیدہ خوان ڈاکٹر صاحب کو جنوبی پنجاب کا پابلو نرودا نہ قرار دے دیں۔

Comments are closed.