کرتار سنگھ بارڈر یا کشمیر بارڈر

شہزاد عرفان

مولانا فضل الرحمٰن نے غلط نہیں کہا کہ کرتار سنگھ بارڈر پر امن اور کشمیر کے بارڈر پر جنگ کیسے ممکن ہے ۔

آج ہر شخص مسکراتا ہوا یہ سوچ رہا ہے کہ” اگر کشمیر کے بارڈر پر حالات خراب ہیں تو پھر کرتا رسنگھ بارڈر کیسے کھولا جا سکتا ہے ؟ اور اگر کرتار سنگھ بارڈر کھولا جاسکتا ہے ، دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بھی قائم اور درست ہیں آپسی راہداری اور تجارتی معاہدے بھی ہورہے ہیں پہلے پچاس سالوں سے براستہ واگہ دلی اور انار کلی کے تاجر روز کروڑوں روپے کا مال تجارت امپورٹ ایکسپورٹ کیسے ہندوستانی اور پاکستانی پنجابوں کے درمیان کرتے رہے ہیں ؟۔

یہ ایفائے محبت نامہ سندھ بلوچستان پشتون اور سرائیکیوں کے لیے کیوں نہیں ہے ؟ اس پنجابی قومی معاشی مفاد میں باقی اقوام شامل کیوں نہیں ہیں ؟ ان کے لیے ملک اور اسلام کو بھارت سے خطرہ ہے۔ مگر انار کلی کا سیٹھ کیسے مزے سے ساڑھیاں پان جیولری اور ہندوستانی پراڈکٹ کیسے بیچ لیتا ہے ؟

جب کہ ٹی وی پر ہرچینل پر صبح سے شام اور شام سے صبح تک عوام کو ازبر رٹا لگوایا جاتا ہے کہ پاکستان کو بھارت سے ہروقت خطرہ ہے دشمن کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے اس لیے اپنی فوج کی عزت کے علاوہ پوجا بھی کرو یہ ریٹائرڈ جرنیل ٹی وی پر بیٹھ کر کیسے بک بک کرتے ہیں کہ ہندوستان سے جنگ کا خطرہ ، کشمیر کا جہادی ایجنڈا ، دشمن کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے بھارت سے اسلام کو خطرہ ہے وغیر وغیره۔

حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی پنجابی فوجی اسٹبلشمنٹ پنجابی سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل پنجابی سکھ مذہب کی خدمت اس قومی جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں جسے بنجابیت کہتے ہیں جس میں صرف پنجابی گردوارے ہی ہندوستان سے دوستی امن بھائی چارے کی علامت ہے باقی اسکے علاوہ ہندو مندر ، ہندو آبادی چاہے ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی اس سے اسلام اور پاکستان دونوں کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

اب پاکستان کی عوام پنجابیوں کا سترسالہ ناٹک اچھی طرح سمجھ کر سن کر دیکھ کر بہت ہنستے ہیں پہلےکہتے تھے۔

یار لگدا تاں نئیں متا ں ہويں۔

اب کہتے ہیں– ” وئے اے تاں اوہو ہے۔


Comments are closed.