کیا جمہوریت کے علمبردار کے لیے اپنی فورس ہونی چاہیے

خالد تھتھال

مُلّا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی آمد آمد ہے۔ کل اس دھرنے کی تیاریوں کے سلسلے میں کئی ویڈیوز اور فوٹو سامنے آئیں، کہیں کوئی ڈنڈوں کو زیبرے جیسا رنگ دے رہا ہے، کہیں خاکساروں کی مانند خاکی سے ملتے جلتے رنگ کے ملیشیا جوان مارچ کرتے دکھائی دے رہے تھے، مُلّا فضل الرحمٰن کو گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا تھا۔

کیا ملکی اداروں کو اپنے جبر کے اداروں کے مقابل جبر کی ایک اور قوت کو موجودگی کو برداشت کرنا چاہیئےَ ؟ ۔ کیا آج کے زمانے میں جمہویت کی علم بردار ایک سیاسی جماعت کے پاس اپنی علیحدہ فورس ہونی چاہیئے؟ یہ فورس کیوں تخلیق ہوئی؟۔ اس کے مقاصد کیا ہیں؟۔ کیا حکومت وقت یا اُن کے سرپرستوں کو ایسی متوازی فورس کی تخلیق اور وجود کو قبول کر لینا چاہیئے؟۔ کیا اس فورس کی مدد سے حکومتی ادارہ یعنی پولیس سے مقابلے کو معمول کی بات سمجھا جائے؟۔

ہاں، یہ بات درست ہے کہ اس روایت کی بنیاد عمران خان نے رکھی، یعنی جو آپ انتخاب کے ذریعے حاصل نہیں کر سکے، وہ آپ غنڈہ گردی کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔لیکن اگر ایک بار ایسا ہو چکا ہے تو کیا اس عمل کو اپنی سیاست کے ثقافتی ورثے کے طور پر گلے لگا لینا چاہیئے؟۔ کیا ایک غلط بات دوسری غلط بات کے جواز کے طور پر قبول کر لینی چاہیئے؟۔ کیونکہ ماضی میں کچھ غلط ہو چکا ہے اس لیے ایسا مستقبل میں ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے؟۔

شائد بغض عمران میں کچھ روشن فکر دوست بھی دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہوں کہ ایک سلیکٹڈ کو اپنی گولی نگلنی پڑے گی۔ اپنے جمہوری ہیرو کو پابند سلاسل دیکھ کر اُن کے دلوں پر چھریاں چلتی ہوں۔ اُس کی حراست کی وجہ سے شائد وہ اس مقولے کے قائل ہوئے جا رہے ہوں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ بیشک یہ محاوہ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ پر سچ ہے کہ دشمن کا دشمن دوست نہیں ہوتا۔ وہ صرف دشمن کا دشمن ہوتا ہے۔

قطع نظر اس بات کے کہ پہلے سے بیٹھی بلکہ لیٹی ہوئی معیشت پر اس دھرنے کے کیا اثرات ہوں گے۔ میرے نزدیک اس دھرنے کی اہمیت معاشی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اس دھرنے سے ملکی سیاست ، معاشرے اور خصوصی طور پر بیرونی ممالک میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

اس دھرنے سے مولویت اپنی طاقت ہی ثابت نہیں کرے گی بلکہ معاشرے میں مولویت کو مزید بڑھاوا ملے گا۔ ملکی سیاست میں مولویت اپنے پنجے مزید گہرے گاڑے گی۔ یعنی یہ ملک سماجی طور پر اور پیچھے جائے گا۔ گو پہلے سے ہی ہر فعل و عمل کو مذہبی عینک سے دیکھنے کی روایت موجود ہے لیکن اس روایت اور رویئےسے معاشرے میں اسے مزید بڑھاوا ملے گا۔

دوستوں کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے سوات میں مُلّا نیک محمد نے خروج کیا تھا۔ اور پوری دنیا میں یہ واویلا شروع ہو گیا تھا کہ طالبان اسلام آباد سے ساٹھ ستر میل یا کلو میٹر کے فاصلےپر آن پہنچے ہیں۔ اب اسلام آباد اُن کی پہنچ سے دور نہیں ہے۔ اور اگر طالبان اسلام آباد پہنچ گئے تو ایک ایٹمی ملک کے اثاثوں پر اُن کے قبضے سے باقی دنیا کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا وغیرہ، وغیرہ۔

مُلّافضل الرحمٰن کی طالبانی سوچ سے کوئی لا علم نہیں ہے، جب اس کاڈنڈوں سے لیس ملیشیا اسلام آباد میں بیٹھ کر حکومت وقت کا محاصرہ کیے ہوئے ہو گا، حکومت کو گھٹنوں کے بل لانے کی کوشش کر رہا ہوں تو تصور کریں کہ بیرون ملک اس کا کیا تاثر جائے گا۔

ایک ملک جو پہلے ہی دنیا کی نظروں میں دہشت گردی کا سپورٹر ہے، دہشت گردوں کی نرسری ہے، جس کے ادارے اپنی سرپرستی میں دہشت گردوں کو پالتے ہیں، انہیں سہولتیں میسر کرتے ہیں، مالی امداد کے علاوی ٹریننگ اور عسکری سہولتیں مہیا کرتے ہیں، جو ملک پہلے اپنی حرکات کی وجہ گرے لسٹ پر موجود ہے۔ اُس ملک کا محاصرہ ایک طالبانی سوچ کے مُلّا نے کیا ہوا ہے اور حکومت وقت بے بس نظر آ رہی ہے!، سوچیئے تھوڑا نہیں بلکہ بہت زیادہ سوچیئے۔

میں ملک سے باہر ہوں، ملکی سیاست کی مجھے اتنی سمجھ نہیں جتنی ملک میں موجود دوستوں کو ہو سکتی ہے۔ میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس دھرنے کی مخالفت میں عمران خان کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ ملائیت کی یہ تاریکی جو معاشرے کو جکڑنے کی کوشش کر رہی ہے، میں اُس کے مقابلے میں کسی بھی ایسے حاکم کی اطاعت کا اعلان کرتا ہوں تو اس وقت اُن کے سامنے کھڑا ہونے کی خواہش کا اظہار کرے، خواہ اُس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔

ہاں، اگر یہ دھرنا مُلّا فضل کی بجائے پیپلز پارٹی، نواز لیگ یا کوئی اور سیاسی جماعت منظم کرتی تو پھر اور بات تھی۔ شائد میں یہی سوچ کر اُسے ہضم کر لیتا کہ اپنے دیس کے طور نرالے ہیں، وہاںسب چلتا ہے۔ اگر پانچ سال پہلے عمران خان نے ایسا کیا تو دوسری جماعتوں نے ایسا کرنے کا ارادہ کر لیا تو کونسی قیامت آ گئی ہے۔ لیکن ایک طالبانی سوچ کا حامل مُلّا حکومت وقت کو اپنے مفادات کی خاطر بلیک میل کرے اور ریاست بیک میل ہوتی نظر آئے، یہ بات مجھے قبول نہیں ہو رہی،۔

گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اگر جمہوریت کی بات کرنی ہے تو انتخابات جیسے بھی ہوں، اُن کے نتائج کو قبول کیا جائے، اگر نتائج توقع یا خواہشات کے برعکس نکلے ہیں تو اگلے انتخاب کا انتظار کیا جائے اور ایسا کچھ کیا جائے کہ اگلے انتخاب میں نتائج آپ کی خواہشات کی عکاسی کریں۔ دھرنا عمران خان منظم کرے، مُلّا طاہر قادری کرے یا مُلّا خادم رضوی کرے، یہ غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں، اور جمہورت کے لیے زہر قاتل ہیں۔

Comments are closed.