کرائے کے شہید

رشید یوسفزئی


علامہ اقبال کی تصنیف بانگ دراکی ظریفانہکے تین شعر ہیں:۔

وہ مس بولی ارادہ خود کشی کا جب کیا میں نے
مہذب ہے تو اے عاشق قدم باہر نہ دھر حد سے

نہ جرات ہے، نہ خنجر ہے تو قصد خودکشی کیسا
یہ مانا درد ناکامی گیا تیرا گزر حد سے

کہا میں نے کہ اے جان جہاں کچھ نقد دلوا دو
کرائے پر منگالوں گا کوئی افغان سرحد سے

سنہ 1901 میں وجود میں آنے کے بعد موجودہ پختون خوا کو شمال مغربی سرحدی صوبہ اور مختصراً صوبہ سرحد کہا جاتا تھا۔ پرانے زمانے کے کچھ گل خان کبھی کبھی نام کے ساتھ سرحدی لگاتے تھے۔

اقبال سے لیکر طارق جمیل تک ہر چھوٹے بڑے مذہبی و غیر مذہبی پروپیگنڈسٹ نے یہاں کے پشتونوں کا مذاق اڑایا ہے۔ بے وقوفی، وحشیانہ طرز عمل، مار کٹائی، دنگا فساد اور قتل و غارت کی ہر داستان میں ویلن کا کردار پشتون کو دیا جاتا ہے۔ اقبال نے ان کو کرائے کے قاتل کہا۔

افغان جہاد کے آرکیٹکٹ جنرل اختر عبدالرحمن کا قول ہے، دو پشتونوں بھائیوں کو ایک گڑ کا ٹکڑا اور ایک کپ سبز چائے دو۔ پھر ایک دوسرے کو ان سے قتل کراؤ۔

نیشنلزم کے احساس اجتماعی اور انفرادی عزت اور وقار کو جنم دیتی ہے۔ پشتونوں کو قومی خود آگاہی اور خودشناسی سے الرجی ہے۔ نیشنلزم ان میں کہاں سے آئے گا؟ دنیا کیلئے ایسے لوگ سامان مذاق اور مسخروں سے زیادہ نہیں ہوتے!۔

جنرل نصیر اللہ خان بابر کے بقول انہوں نے پشتون نیشنلزم کو کچلنے کیلئے افغان آفس کی بنیاد بھٹو کے حکم پر 70 کی دہائی کے آغاز میں رکھی تھی جب وہ آئی جی فرنٹیئر کور تھا۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری بریگیڈیئر اسلم بودلہ کے سپرد تھی۔ افغانوں کی جو اولین کھیپ اس مقصد کیلئے کرائے پر لی گئی تھی ان سات بندوں میں عبدالرب رسول سیاف اور گلبدین حکمت یار سر فہرست تھے۔

جنرل صاب نے اپنی ڈائری میں نوٹ کیا ہے اج گلبدین نے تین لاکھ روپے مانگے۔ جب میں نے کام کا پوچھا تو اس نے سوال کیا کہ تین سو لاشیں کابل میں پوری نہیں ہوں گی؟۔

خانہ فرہنگ ایران پشاور میں ایک عشائیہ میں راقم نے جنرل صاب کو دعوت دی تھی۔ عشائیے کے اختتام پر جنرل صاب، سابق وزیر مذہبی امور قاری روح اللہ مدنی، اور اس وقت کے ڈیلی ٹائمز کے بیورو چیف اقبال خٹک گپ شپ کیلئے راقم کے دفتر جمع ہوئے۔ برسبیل تذکرہ جنرل صاب نے کہا کہ گلبدین حکمت یار سے پہلا اختلاف کرائے کے شہیدوںپر ہوا۔ ہم سب نے تعجب کا اظہار کیا تو جنرل صاب نے وضاحت کی:۔

کبھی کبھار کسی پاکستانی سربراہ مملکت کی بیرون ملک دورے یا کسی امریکی و یورپی سربراہ مملکت کی پاکستان آمد سے قبل کچھ امور کی بناء پر شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بار کرائے کی ایسی شہادتوں کی اچانک ضرورت آئی۔ گلبدین جو رقم مانگتا تھا میں اس کیلئے تیار نہ تھا۔ دوم مجھے کرائے کی شہیدوں کی ضرورت پشاور میں تھی۔ گلبدین جلال آباد اور کابل میں شہیدوں کی سپلائی پر آسانی سے آمادہ تھا مگر پشاور کی نوعیت مختلف تھی۔۔۔ بالاخر ہم ایک درمیانی رقم پر متفق ہوئے۔ مگر یہ اختلاف ہمارے درمیان ایک رخنہ چھوڑ گیا۔

اس کے بعد جنرل صاب نے علم الانفجار یا دھماکوں کی انجینئرنگ، کے متعلق بتایا کہ ایک دھماکے میں کتنی لاشیں، جسموں کے کتنے حصے ٹکڑے، کتنے بچے، کتنے مرد، کتنے عورتیں چاہیے۔ اضافی نقصان یا کولیٹرل ڈیمج کیا اور کتنا ہوگا، زیادہ توجہ کیلئے کسی وی ائی پی کو دھماکہ کی ٹارگٹ قرار دے کر اس کو بچانے وغیرہ جیسے امور پر تفصیل سے لیکچر دیا۔

بطور میزبان میں یہ جرات نہ کرسکا کہ جنرل صاب سے پوچھ لوں کہ جناب، جو شہید ہوئے وہ تو دنیا میں نہ رہے۔ پھر کرایہ کس کو ملتاہے؟ اور یہ کرائے کے شہید دنیا میں صرف پشتون نسل سے کیوں سپلائی کئے جاتے ہیں ؟

پشتون خطہ انسانی گوشت، لاشوں اور جانوں کی سپر مارکیٹ ہے۔ میری قوم میں بوقت ضرورت اپ کو کٹے ہوئے ہاتھ، سر، میری ماؤں بہنوں کی خون الودہ چھاتیاں، بزرگوں کی ڈاڑھیاں، بچوں کی چھوٹی گوشت، جوانوں کی تازہ گوشت سب کچھ انتہائی معمولی قیمت پر پشتون قصائیوں اور دلالوں سے مل سکتی ہے۔ ہاں، پوری رقم ادا کرنے کا ٹکٹ گھر دریائے سندھ کے اس پار ہے۔

زیر نظر تصویر سی ایم ایچ پشاور میں جنرل صاب کی موت کاوقت ہے۔ اس وقت راقم کے علاوہ ساری دنیا اس کو چھوڑ چکی تھی۔ خداوند سب کو ایسے خوفناک انجام سے بچائے۔

2 Comments