مور کی آنکھوں والی تتلی

ہَیرمان ہَیسے کی لکھی ایک کہانی، 1911ء

میرا دوست اور مہمان ہائنرِش موہر اپنی شام کی سیر سے واپس آ کر میرے پاس مطالعے کے کمرے میں بیٹھا تھا اور دن کی باقی ماندہ روشنی بھی ختم ہونے کو تھی۔ کھڑکیوں سے پرے کافی دور وہ ہلکے پیلے رنگ کی جھیل تھی، جس کے کناروں پر چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں۔ میرا چھوٹا بیٹا ابھی ابھی شب بخیر کہہ کر گیا تھا اور ہم دیر تک بچوں اور بچوں کی یادداشتوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے “۔

جب سے میرے بچے پیدا ہوئے ہیں،” میں نے کہا، “میرے اندر میرے اپنے لڑکپن کی چند پسندیدہ باتیں اور چاہتیں دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں۔ تقریباً ایک سال ہو گیا میں نے تو دوبارہ تتلیاں جمع کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔ کیا تم دیکھنا چاہو گے؟” اس نے مجھے درخواست کی تو میں اٹھ کر گتے کے بنے ہوئے بہت کم وزن ڈبوں میں سے دو تین وہاں لے آیا۔

جب میں نے پہلا ڈبہ کھولا تو تب ہم دونوں کو احساس ہوا کہ کتنا اندھیرا ہو چکا تھا۔ گتے کے ڈبے کے وہ کنارے بمشکل پہچانے جا سکتے تھے جن کو ایک ایک کر کے موڑ دینے سے ڈبہ کھولا یا بند کیا جا سکتا تھا۔ میں نے لیمپ اٹھایا اور ماچس کی ایک تیلی جلائی، تو باہر کا منظر یکدم کہیں ڈوب گیا اور کھڑکیوں پر رات کی ایسی نیلاہٹ چھا گئی جس میں سے کسی شے کا گزرنا ممکن ہی نہ تھا۔ لیکن ڈبے میں میری تتلیاں لیمپ کی تیز روشنی میں شاندار طریقے سے چمک رہی تھیں۔ ہم دونوں ڈبے پر جھک گئے، ان تتلیوں کے رنگا رنگ ڈیزائنوں والے پروں کا مشاہدہ کیا اور ان کے نام دہرانے لگے۔

یہ، یہ پیلی دھاری والی تتلی،” میں نے کہا، لاطینی زبان میں فُلمینیا، یہ یہاں بڑی ہی کمیاب ہے۔” ہائنرِش موہر نے سوئیوں میں پرو کر ڈبے میں رکھی گئی تتلیوں میں سے ایک کی سوئی پکڑ کر اسے بڑی احتیاط سے ڈبے سے باہر نکالا اور اس کے پروں کی نچلی طرف کا مشاہدہ کرنے لگا۔ “عجیب بات ہے،” اس نے کہا، “کوئی دوسرا نظارہ میرے اندر بچپن کی یادوں کو اتنی شدت سے بیدار نہیں کرتا جتنا کہ تتلیوں کو دیکھنا۔” پھر اس نے ڈبے کے کناروں کو دوبارہ ان کے طے شدہ حصوں سے موڑا اور ڈھکن بند کرتے ہوئے بولا، “کافی ہو گیا!” اس نے یہ بات کچھ سختی اور اتنی جلدی سے کہی جیسے اس سے اس کی کوئی ناپسندیدہ یادیں جڑی ہوں۔

پھر کچھ ہی دیر بعد جب میں وہ ڈبہ واپس اس کی جگہ پر رکھ کر لوٹا تو وہ اپنے بھورے، پتلے چہرے کے ساتھ مسکرا دیا اور ساتھ ہی مجھے ایک سگریٹ کی درخواست بھی کر دی۔ “تم اس کا برا نہ منانا،” وہ بولا، “کہ میں نے تمہاری جمع کردہ تتلیوں کے ذخیرے کو بڑی توجہ سے نہیں دیکھا۔ ایک لڑکے کے طور پر ظاہر ہے کہ میرے پاس بھی ایسا ہی ایک ذخیرہ تھا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس یاد کو میں نے خود ہی اپنے لیے بیزار کن بنا دیا۔ کیسے؟ میں تمہیں یہ بالکل بتا سکتا ہوں، حالانکہ بات ہے تو شرمندگی کی”۔

اس نے لیمپ کے سلنڈر کے اوپر سے سگریٹ سلگایا اور لیمپ کے اوپر سبز شیڈ اس طرح رکھ دیا کہ ہمارے چہرے نیم تاریکی میں ڈوب گئے۔ پھر وہ کھلی ہوئی کھڑکی کی کورنیش پر جا کر اس طرح بیٹھ گیا کہ اس کا پتلا آگے کو جھکا ہوا جسم اپنے پس منظر کی تاریکی سے بمشکل ہی تھوڑا سا اوپر کو اٹھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت جب میں اپنا سگریٹ پی رہا تھا اور باہر، کافی دور اونچی آواز میں ٹراتے ہوئے مینڈکوں کا شور رات کی خاموشی کو بھرتا جا رہا تھا، میرے دوست نے مجھے مندرجہ ذیل تفصیلات بتائیں:۔

میں نے آٹھ یا نو سال کی عمر میں تتلیاں جمع کرنا شروع کیں۔ میں نے شروع میں ایسا کسی خاص جذبے یا شدت کے بغیر کیا، جیسے بچوں کے کئی دوسرے کھیل یا پسندیدہ مصروفیات ہوتی ہیں۔ لیکن دوسرے موسم گرما میں، جب میری عمر کوئی دس سال رہی ہو گی، یہ کھیل مجھ پر پوری طرح غالب آ چکا تھا۔ تب میرا یہ شوق انتہائی شدید ہو کر مجھے اس حد تک اپنی گرفت میں لے چکا تھا کہ کئی بار یہ رائے بھی دی گئی کہ میرے تتلیاں جمع کرنے پر لازماً پابندی لگا دی جائے، اس لیے کہ میں اس شوق کے علاوہ باقی سب کچھ بھلا چکا تھا، بالکل نظر انداز کر چکا تھا۔

جب میں تتلیاں پکڑنے نکلتا تو مجھے مینار پر نصب گھڑیال کے بجنے کی آواز بھی سنائی نہ دیتی، چاہے تب میں اسکول میں ہوتا یا وہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا۔ چھٹیوں کے دنوں میں تو میں اکثر کمیاب نباتات جمع کرنے والوں کے زیر استعمال آنے والے دھاتی ڈبے میں رکھے روٹی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ صبح سویرے سے رات تک باہر رہتا اور اس دوران ایک بار بھی کھانے کے وقت گھر نہ لوٹتا۔

میں آج بھی جب بہت ہی خوبصورت تتلیاں دیکھوں تو کبھی کبھی یہی جنون کی حد تک زیادہ شوق مجھے دوبارہ اپنے اندر کچھ کچھ سر اٹھاتا محسوس ہوتا ہے۔ پھر چند لمحوں کے لیے مجھے دوبارہ وہی بےنام، لالچ اور بہت زیادہ خوشی کا ملا جلا جذبہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، جسے صرف بچے ہی محسوس کر سکتے ہیں، وہی جوش و جذبہ جس کے ساتھ میں نے لڑکپن میں پہلی بار وہ رنگ دار دھاریوں والی تتلی پکڑی تھی، جو “سویلو ٹیل” کہلاتی ہے۔

پھر یکدم مجھے اپنے بچپن کے وہ لاتعداد لمحے اور گھنٹے دوبارہ یاد آنے لگتے ہیں، جو میں نے کبھی گنے ہی نہیں تھے، خشک لیکن تیز خوشبو والی سبز گھاس کے وسیع میدانوں میں گزری دہکتی ہوئی دوپہریں، باغوں میں گزرے ٹھنڈی صبحوں کے بےشمار گھنٹے اور پراسرار جنگلوں کے کنارے بیتی وہ شامیں جب میں خزانے کی تلاش میں نکلے ہوئے کسی انسان کی طرح اپنا جال ہاتھ میں پکڑے دبکا کھڑا رہتا تھا اور ہر گزرتے ہوئے لمحے کسی زبردست حیران کن واقعے اور اچانک حاصل ہونے والی خوشی کا تصور مجھے اپنی لپیٹ میں لیے رکھتا تھا۔

تب میں اگر کوئی خوبصورت تتلی دیکھتا، چاہے وہ کوئی بہت کمیاب قسم کی تتلی نہ بھی ہوتی، تو جب وہ دھوپ میں کسی پھول کی پتلی سی ٹہنی پر بیٹھتی، تیزی سے سانس لیتی ہوئی اپنے رنگین پروں کو اوپر نیچے حرکت دیتی، اور اسے پکڑ لینے کی خواہش کی وجہ سے میں سانس لینا بھی بھول جاتا، تو پھر جب میں آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتا جاتا تو مجھے اس کے پروں پر ہر چمکتا ہوا رنگ دار دھبہ، تمام رگیں اور بھورے رنگ کے تمام انتہائی باریک بالوں تک سب کچھ صاف نظر آنے لگتا۔ یہ بھرپور خوشی کا باعث اور اتنا پرتجسس تجربہ ہوتا، جس میں بڑے نازک سے سرور اور لامحدود لالچ دونوں کی آمیزش ہوتی۔ یہ تجربہ مجھے اپنی بعد کی زندگی میں شاید ہی کبھی ہوا ہو۔

میرے والدین چونکہ غریب تھے اور مجھے کوئی مہنگا ڈبہ تو خرید کر تحفے میں نہیں دے سکتے تھے، اس لیے میں مجبور تھا کہ اپنے تتلیوں کے ذخیرے کو گتے کے ایک عام سے استعمال شدہ اور پرانے ڈبے میں ہی محفوظ رکھوں۔ میں شیشے کی بوتلوں کو بند کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کورک کے گول گول ٹکڑے زمین پر رکھ کر ان میں چھوٹی چھوٹی سوئیاں کھبو دیتا اور اپنے تتلیوں کے خزانے کو اس تڑی مڑی دیواروں والے گتے کے پرانے ڈبے کے اندر رکھ دیتا۔ شروع میں میں اپنا یہ خزانہ بڑے شوق سے اپنے دوستوں کو دکھاتا تھا، مگر دوسروں کے پاس اس مقصد کے لیے لکڑی کے بنے ہوئے ڈبے تھے، جن کے ڈھکن شیشے کے بنے ہوئے ہوتے تھے، جن میں سبز رنگ کی دیواروں والی ایسی چھوٹی چھوٹی ڈبیائیں بھی ہوتی تھیں جن میں تتلیوں کے ننھے منے کرم رکھے جاتے تھے۔

ان ڈبوں کی کئی دیگر پرتعیش خصوصیات بھی ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے میں اپنے بہت پرانے ڈبے کے بارے میں کوئی شیخی بھی نہیں مار سکتا تھا۔ مجھے اس کی زیادہ خواہش بھی نہیں رہی تھی اور پھر میری یہ عادت بنتی گئی کہ اگر میں کوئی بہت اہم اور خوش کر دینے والا شکار بھی کرتا، تو اس کے بارے میں خاموشی اختیار کر لیتا اور اسے صرف اپنے بہن بھائیوں کو ہی دکھاتا۔

ایک بار میں نے نیلے رنگ کی “پرپل ایمپرر” کہلانے والی ایک ایسی تتلی پکڑی جو ہمارے علاقے میں تو بہت ہی کمیاب تھی۔ میں نے اسے سوئی پر لگایا اور جب وہ وقت گزرنے کے ساتھ خشک ہو گئی، تو اندرونی فخر کے احساس نے مجھے مجبور کرنا شروع کر دیا کہ میں یہ کمیاب پروانہ کم از کم اپنے ہمسائے کو تو دکھا ہی دوں، جو ایک استاد کا بیٹا تھا اور حویلی کے ساتھ والے مکان کی بالائی منزل میں رہتا تھا۔ اس لڑکے کا خاصا یہ تھا کہ وہ کسی بھی طرح کی کوئی غلطی نہیں کرتا تھا اور یہ بات بچوں میں تو دگنی حد تک ڈرا دینے والی ہو جاتی ہے۔

اس کے پاس موجود تتلیوں کا ذخیرہ یوں تو چھوٹا اور بےمعنی سا تھا مگر اس نے اسے اتنی احتیاط اور ترتیب سے رکھا ہوا تھا کہ وہ موتیوں جیسا خوبصورت لگتا تھا۔ اسے تو اس انتہائی مشکل اور نایاب فن کی بھی سمجھ تھی، جس کی مدد سے وہ تتلیوں کے ٹوٹے ہوئے پروں کو گوند لگا کر دوبارہ جوڑ بھی لیتا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک مثالی لڑکا تھا اور اسی لیے میں اپنے اندر موجود حسد اور نیم پسندیدگی کے جذبات کے ساتھ اس سے نفرت بھی کرتا تھا۔

اس نوجوان مثالی لڑکے کو میں نے اپنی “پرپل ایمپرر” قسم کی نیلی تتلی دکھائی تو اس نے کسی بڑے ماہر کی طرح اس کے بارے میں اپنی رائے دی۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ واقعی بڑی نادر قسم کی تتلی تھی اور اس کی نقد قیمت تقریباً بیس فینِگ (پیسے) تک ہو سکتی تھی۔ ایمِیل نامی اس لڑکے کو مشغلے کے طور پر جمع کی جانے والی تمام اشیاء کا علم ہوتا تھا، خاص طور پر ٹکٹوں اور تتلیوں کا، اور وہ ایسی ہر جمع کردہ شے کی نقد مالیت کا اندازہ بھی لگا سکتا تھا۔

لیکن پھر اس نے تنقید کرنا شروع کر دی۔ اس کے مطابق میں نے اپنی “پرپل ایمپرر” کو اس کے پھیلے ہوئے پروں کے ساتھ سوئی پر لگانے کا کام ناقص انداز میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ تتلی کے سر سے نکلنے والے دونوں لمبے سینسرز میں سے دایاں مڑا ہوا تھا اور بایاں بالکل سیدھا تھا۔ پھر اس نے سچ مچ کی ایک اور بڑی خامی بھی دریافت کر لی، تتلی کی دونوں ٹانگیں غائب تھیں۔ میں نے اس خامی کو کوئی بہت بڑا نقص تو نہ سمجھا لیکن اس مسلسل نقائص تلاش کرتے رہنے والے لڑکے نے میری وہ خوشی کافی حد تک برباد کر دی تھی جو مجھے اپنی “پرپل ایمپرر” کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ اس کے بعد میں نے اپنی پکڑی ہوئی تتلیاں اسے دوبارہ کبھی نہیں دکھائی تھیں۔

دو سال بعد جب ہم کافی بڑے ہو چکے تھے اور میرا شوق تب بھی اپنی انتہا پر تھا، انہی دنوں میں یہ افواہ پھیلی کہ اسی لڑکے ایمِیل نے “ایمپرر موتھ” کہلانے والی تتلیوں میں سے “پیکوک موتھ” قسم کی ایک تتلی پکڑ لی ہے۔ میرے لیے یہ بات اس سے کہیں زیادہ دلچسپی اور جوش کا باعث تھی کہ مثال کے طور پر آج مجھے کوئی بتائے کہ میرے کسی دوست کو ورثے میں ایک ملین کی خطیر رقم مل گئی ہے یا میرے کسی دوست کو قدیم روم کے مؤرخ لیویئس کی گمشدہ کتابیں مل گئی ہیں۔ پیکوک بٹرفلائی ایک ایسی تتلی تھی، جو ہم میں سے آج تک کسی نے بھی نہیں پکڑی تھی۔

میں اس تتلی کو تتلیوں سے متعلق ایک پرانی کتاب میں چھاپی گئی ایک تصویر کی وجہ سے جانتا تھا۔ یہ کتاب میری ملکیت تھی اور اس میں شامل ہاتھ سے بنائی گئی رنگین تصویریں ماڈرن کلر پرنٹنگ کے مقابلے میں حقیقت کے کہیں زیادہ قریب اور خوبصورت تھیں۔ ان تمام تتلیوں میں سے جن کے نام میں جانتا تھا اور جو ابھی تک میرے گتے کے ڈبے میں موجود نہیں تھیں، ان سب میں سے مجھے کسی بھی جاندار کے حصول کی خواہش اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ پیکوک بٹرفلائی کی، جس کے پروں پر جیسے مور کی آنکھیں بنی ہوتی ہیں۔ میں نے اپنی تتلیوں کی کتاب میں اس تتلی کی تصویر پر کئی مرتبہ غور بھی کیا تھا۔

میرے ایک ساتھی نے مجھے ایک بار بتایا تھا: جب یہ بھورے رنگ کی تتلی کسی درخت کے تنے پر یا کسی اور جگہ پر خاموشی سے بیٹھی ہو، اور کوئی پرندہ یا کوئی دوسرا دشمن اس پر حملہ کرنا چاہے، تو وہ صرف اپنے گہرے رنگ کے بند کیے ہوئے اگلے پر کھول کر اپنے بہت خوبصورت پچھلے پر دکھا دیتی ہے، جن پر بنی ہوئی بڑی بڑی روشن آنکھیں اچانک سامنے آنے کے بعد اتنی عجیب و غریب نظر آتی ہیں کہ پرندے ڈر جاتے ہیں اور اس تتلی کے سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔

یہ شاندار جانور اس بیزارکن ایمِیل کو مل گیا ہے! جب میں نے یہ سنا، تو مجھے فوری طور پر صرف یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ اب میں بالآخر اس بہت نادر جاندار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گا۔ اس خوشی کے ساتھ بہت زیادہ تجسس بھی جڑا ہوا تھا۔ پھر ساتھ ہی مجھے حسد بھی ہونے لگا اور مجھے یہ سوچ کر گِھن آنے لگی کہ کیا لازم تھا کہ یہ نایاب، پراسرار اور انتہائی قیمتی تتلی اس بور کر دینے والے، بل ڈاگ کی شکل والے ایمِیل نے ہی پکڑنا تھی۔ اسی وجہ سے میں نے خود پر جبر کیا اور ایمِیل کو یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا کہ میں اس کے گھر جاتا اور وہ مجھے دکھاتا کہ اس نے کتنی کمیاب تتلی پکڑی ہے۔ لیکن میں اس بات کو اپنے ذہن سے نکال نہیں سکا تھا۔ اگلے روز جب اسکول میں بھی اس افواہ کی تصدیق ہو گئی تو میں نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ میں وہ تتلی دیکھنے جاؤں گا جس کے پروں پر مور کی انکھیں بنی ہوتی ہیں۔

کھانے کے بعد میں جتنا جلد گھر سے باہر نکل سکتا تھا نکلا اور دوڑ کر حویلی کا صحن پار کر کے ساتھ والے مکان کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا تیسری منزل پر پہنچ گیا، جہاں ملازماؤں کے کمروں اور ایندھن کے طور پر استعمال کے لیے کٹی ہوئی لکڑی ذخیرہ کرنے کے کمروں کے ساتھ ہی ایک ایسا کمرہ تھا جہاں معلم کے اس بیٹے کو اکیلے رہنے کی اجازت تھی اور جس کی وجہ سے میں اکثر اس سے حسد بھی کرتا تھا۔ مجھے وہاں جاتے ہوئے راستے میں کوئی نہیں ملا تھا اور جب میں نے اوپر جا کر کمرے کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔

ایمِیل وہاں نہیں تھا اور جب میں نے دروازے کے ہینڈل کو ہاتھ لگایا تو مجھے دروازہ بھی کھلا ہوا ملا، حالانکہ ایمِیل جب وہاں نہ ہوتا تو اپنے پیچھے اس دروازے کو باقاعدہ تالہ لگا کر جاتا تھا۔ میں اندر داخل ہو گیا کہ کم از کم اس تتلی کو تو دیکھ لوں۔ میں نے فوراً وہ دونوں بڑے ڈبے کھولے جن میں ایمِیل اپنی جمع کردہ تتلیاں رکھتا تھا، میری تلاش جاری تھی لیکن مجھے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ پھر مجھے یاد آیا کہ وہ نادر پروانہ تو ابھی اس تختے پر ہی ہو گا، جہاں اسے محفوظ رکھنے کے لیے سوئی میں پرویا جاتا ہے۔ قریب ہی مجھے وہ تختہ بھی مل گیا: بھورے پروں پر کاغذ کی باریک کترنیں لگی ہوئی تھیں اور پیکوک بٹرفلائی ایک سوئی کے ساتھ لکڑی کے تختے پر لٹکی ہوئی تھی۔

میں تختے پر اس پتنگے کے اوپر جھک گیا اور میں نے سب کچھ بہت قریب سے دیکھا، اس کے سر سے نکلے ہوئے ہلکے بھورے رنگ کے وہ سینسر جن پر بالوں جیسے انتہائی باریک روئیں تھے، اس کے پروں کے بہت شاندار اور انتہائی نازک کنارے جن کے رنگ بےحد پرکشش تھے، اور نچلے پروں کے اندرونی کناروں کی وہ سطح بھی، جہاں انتہائی باریک روئیں تھے مگر جو عمدہ روئی کی بنی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ میں اس تتلی کی صرف آنکھیں نہیں دیکھ سکتا تھا، کیونکہ وہ کاغذ کی پتلی کترنوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ میں نے تیز دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اپنی اس خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے کہ مجھے کاغذ کی وہ چپکی ہوئی باریک کترنیں ہٹا دینا چاہییں۔ میں نے سوئی کھینچ کر باہر نکال لی۔ وہاں چار بڑی بڑی،عجیب و غریب آنکھیں تھیں، جو مجھے دیکھ رہی تھیں، ان سے کہیں زیادہ خوبصورت اور معجزہ نما جیسی وہ تصویر میں نظر آتی تھیں۔

اس تتلی کو پہلی نظر میں دیکھنے پر ہی میرے ذہن میں اس بہت حسین پتنگے کی ملکیت کا ایسا لالچ پیدا ہوا کہ اس خواہش پر قابو پانا ناممکن ہو گیا تھا، یہاں تک کہ میں مزید کچھ بھی سوچے بغیر اپنی زندگی کی پہلی چوری کا مرتکب ہو گیا۔ میں نے بڑی احتیاط سے سوئی کو کھینچ کر باہر نکالا اور تتلی جو اس وقت تک خشک ہو چکی تھی اور اس کی ہیئت بدلی نہیں تھی، اسے اپنی مٹھی میں بند کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس وقت مجھے اپنے اندر بےتحاشا اطمینان کے علاوہ کوئی دوسرا جذبہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس پتنگے کو اپنے دائیں ہاتھ کی مٹھی میں چھپائے میں نے سیڑھیاں اترنا شروع کر دیں۔ پھر مجھے سیڑھیوں سے کسی کے اوپر چڑھتے آنے کی آواز سنائی دی تو اسی لمحے میرا ضمیر بھی جاگ گیا۔ مجھے فوراً احساس ہو گیا کہ میں نے چوری کی تھی اور میں ایک خود غرض لڑکا تھا۔ ساتھ ہی مجھ پر یہ خوف ناک دہشت بھی طاری ہو گئی کہ دوسروں کو میرے جرم کا علم ہو جائے گا۔ اس پر میں نے اپنا وہ ہاتھ جس میں چوری کردہ تتلی تھی، جبلی طور پر اپنی جیکٹ کی جیب میں چھپا لیا۔

میں کانپتا ہوا اور شرمندگی اور جرم کے یخ بستہ احساس میں ڈوبا دوبارہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے والی ایک ملازمہ میرے قریب سے گزری تو میں اور بھی خوف زدہ ہو گیا تھا۔ نیچے مکان کے دروازے کے پاس پہنچ کر میں وہاں کھڑا ہو گیا۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا، ماتھے پر پسینہ تھا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی اور میں خود سے بھی خوف زدہ تھا۔ پھر فوراً ہی مجھ پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ مجھے یہ تتلی نہ تو اپنے پاس رکھنا چاہیے تھی اور نہ ہی میں ایسا کر سکتا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ مجھے اسے واپس رکھ آنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو سب کچھ ویسا ہی نظر آنا چاہیے کہ جیسے کچھ بھی ہوا ہی نہیں تھا۔

میں کسی کے اچانک مل جانے اور اپنے پکڑے جانے کے شدید خوف کے باوجود پلٹا اور جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتا ایک منٹ کے اندر اندر دوبارہ ایمِیل کے کمرے میں موجود تھا۔ میں نے بڑے محتاط انداز میں اپنی بند مٹھی جیکٹ کی جیب سے نکالی اور تتلی کو میز پر رکھ دیا۔ مجھے اسے دوبارہ دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک بڑا حادثہ ہو چکا ہے اور میں رونے کے بالکل قریب تھا۔ پیکوک بٹرفلائی تباہ ہو چکی تھی۔ اوپر والا دایاں پر اور دایاں سینسر دونوں غائب تھے، میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اس کے ٹوٹے ہوئے پر کو اپنی جیب سے نکالنے کی کوشش کی تو وہ یوں ریزہ ریزہ ہو گیا کہ اس کے ٹکڑے جوڑنے کا تو سوچنا بھی محال تھا۔

میرے لیے اب چوری کا مرتکب ہونے کے احساس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اس منظر کو دیکھنا تھا کہ میں نے اس بہت خوبصورت اور نادر پتنگے کو تباہ کر دیا تھا۔ مجھے اپنی انگلیوں پر اس کے پروں کی نرم بھوری گرد نظر آ رہی تھی اور میرے سامنے اس کے ٹوٹے ہوئے پر پڑے تھے۔ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ اگر مجھے اپنی ملکیت ہر شے اور اپنی خوشی بھی دینا پڑتی تو میں اسے دوبارہ مکمل دیکھنے کے لیے وہ بھی دے دیتا۔ میں بہت افسردگی کی حالت میں گھر لوٹا اور پوری سہ پہر اپنے چھوٹے سے باغ میں بیٹھا رہا۔ پھر جب شام کا ملگجا پھیلنے لگا تو مجھ میں اتنی ہمت پیدا ہوئی کہ میں اپنی والدہ کو سب کچھ بتا دوں۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ میری والدہ کو کتنا دھچکا لگا تھا اور وہ کتنی افسردہ تھی۔ لیکن میری والدہ کو یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ کسی بھی بڑی سے بڑی سزا کو برداشت کرنے کے مقابلے میں مجھے یہ اعتراف جرم کتنا مہنگا پڑا تھا۔ “۔

تمہیں لازمی طور پر ایمِیل کے پاس جانا چاہیے،” میری والدہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا، “اور اسے یہ سب کچھ خود بتا دینا چاہیے۔ یہی وہ واحد کام ہے جو تم اب کر سکتے ہو۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، میں تمہیں معاف نہیں کر سکتی۔ تم اسے یہ پیشکش کر سکتے ہو کہ وہ تمہاری ملکیت اشیاء میں سے متبادل کے طور پر کچھ بھی منتخب کر لے اور تمہیں بہرحال اس سے یہ درخواست کرنا ہو گی کہ وہ تمہیں معاف کر دے۔”

اس مثالی لڑکے کے مقابلے میں میرے لیے اپنے کسی بھی دوسرے ساتھی کے ساتھ ایسا کرنا کہیں زیادہ آسان ہوتا۔ مجھے قبل از وقت ہی محسوس ہو گیا تھا کہ وہ میری بات نہیں سمجھ سکے گا اور ممکنہ طور پر میرے کہے پر یقین بھی نہیں کرے گا۔ پھر شام اور اس کے بعد تقریباً رات ہو گئی لیکن میرا جی پھر بھی نہ چاہا کہ میں اس کے گھر جاؤں۔

تب میری والدہ نے مجھے نیچے، گھر کے راستے میں کھڑا پایا، تو ہلکی آواز میں بولی، “تمہیں یہ کام لازماً آج ہی کرنا ہے، جاؤ اب!” میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا تو پہلی ہی منزل پر میں نے ایمِیل کے بارے میں پوچھ لیا۔ وہ آیا تو فوراً مجھے بتانے لگا کہ کسی نے اس کی پیکوک بٹرفلائی تباہ کر دی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ ایسا کسی برے لڑکے نے کیا، شاید کسی پرندے نے یا پھر کسی بلی نے۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ اوپر آئے اور مجھے سب کچھ دکھائے۔ ہم اوپر گئے، اس نے کمرے کے دروازے پر لگا تالہ کھولا اور اندر جا کر ایک موم بتی جلائی۔ مجھے لکڑی کے تختے پر وہ تتلی بڑی بدحالی میں پڑی نظر آئی۔

میں دیکھ سکتا تھا کہ اس نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح اس پتنگے کے جسم کے ٹوٹے ہوئے حصے جوڑ سکے۔ ٹوٹا ہوا پر بڑی احتیاط سے سیدھا کیے جانے کے بعد ایک گیلے کاغذ پر پھیلا دیا گیا تھا۔ لیکن اس کی مرمت نہیں کی جا سکتی تھی اور تتلی کا ایک سینسر بھی تو غائب تھا۔

تب میں نے بتا دیا کہ یہ سب کچھ میرے ہاتھوں ہوا تھا اور میں نے تمام تفصیلات بتانے اور وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ ایمِیل غصے سے پاگل ہو جانے اور مجھ پر چیخنے کے بجائے اپنے ہونٹ تھوڑے سے کھول کر دانتوں کے بیچ میں سے سیٹی بجانے لگا اور بڑی دیر تک مجھے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا: “اچھا، اچھا! تو ایسے ہو تم!۔

میں نے اسے اپنے تمام کھلونے دینے کی پیشکش کر دی لیکن جب وہ پھر بھی چپ رہا اور مجھے مسلسل حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا، تو میں نے اسے اپنا تتلیوں کا سارا ذخیرہ دینے کی پیشکش بھی کر دی۔ مگر وہ بولا: “بہت شکریہ، میں تمہاری جمع کردہ تتلیوں کے ذخیرے سے پہلے ہی سے واقف ہوں۔ یہ بات تو کوئی بھی آج پھر دیکھ ہی سکتا تھا کہ تم تتلیوں سے کیسا سلوک کرتے ہو۔” اس لمحے اس بات میں کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی کہ میں چھلانگ لگا کر اس کی گردن دبوچ لیتا۔ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ میں تو بہت گرا ہوا تھا اور گرا ہوا ہی رہا۔ ایمِیل بڑی سرد مہری سے کسی عالمی نظام کی طرح میرے سامنے کھڑا رہا تھا، جیسے انصاف مجھے بڑی حقارت سے دیکھ رہا ہو۔ اس نے مجھے ایک بار بھی برا بھلا نہ کہا، وہ صرف مجھے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا تھا۔

تب میں نے پہلی بار یہ دیکھا تھا کہ جو کچھ بھی ایک بار خراب یا برباد ہو جائے، اسے دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ میں وہاں سے نکلا اور اس بات پر خوش تھا کہ گھر پر میری ماں نے مجھ سے کوئی سوال نہ کیے اور صرف میرا ایک بوسہ لے کر مجھے آرام کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ تب مجھے سونا چاہیے تھا کیونکہ میرے سونے کے وقت کے لحاظ سے کافی دیر ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے لیکن میں اپنا تتلیوں والا بڑا رنگین ڈبہ چپکے سے کھانے کے کمرے میں لے آیا تھا۔ میں نے وہ ڈبہ لا کر اپنے بستر پر رکھا اور اسے اندھیرے میں کھولا۔ پھر میں نے اس میں سے تتلیاں باہر نکالیں، ایک کے بعد ایک، اور انہیں اپنی انگلیوں سے مسل کر ان کے ٹکڑے اور برادہ بناتا گیا۔

مصنف: ہَیرمان ہَیسے (1911ء)۔
جرمن ٹائٹل: (Das Nachtpfauenauge)
جرمن سے اردو ترجمہ: مقبول ملک

Comments are closed.