کیا جمہوریت کو سافٹ فاشزم سے خطرہ ہے ؟

بیرسٹرحمید باشانی

ہم لوگ ایک ہنگامہ خیزدورکے لوگ ہیں۔  ہمارے دورمیں اس دنیا میں تقریبا ہرمعاشی وسیاسی نظام کا تجربہ ہوا ہے۔  گزشتہ صدی دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات کی صدی تھی۔  دنیا کا ہر ہونا انہونا واقعہ اس صدی میں رونما ہوا۔  پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، ںوبادیاتی نظام کا انہدام،  روس اور چین کے سوشلسٹ انقلاب ،  سویت یونین کا ٹوٹنا، اور لبرل جمہوریت کا ابھار جیسے معجزانہ اور حیران کر دینے والے واقعات رونماہوئے ۔

سنہ ۱۹۱۷ سے لیک۲۰۱۹ تک ہم نے دنیا بھر میں تقریبا ہر ایک معاشی اورسیاسی نظام کو پرکھا ہے۔ 1917 کا بالشویک انقلاب دنیا کو ہلا دینے والا انقلاب تھا۔  اس انقلاب نے دنیا کی سیاسی لینڈ سکیپ بدل کر رکھ دی تھی۔ اس کے بعد کی چھ سات دھائیوں تک دنیا اشتراکیت اور سرمایہ داری کے گرد گھومتی رہی۔  انیسویں صدی کی پانچویں اورچھٹی دھائیاں دنیا میں انقلابی تحریکوں اور انقلابوں کی دھائیاں تھیں۔ اس لحاظ سے انسویں صدی ہر لحاظ سے ایک ہنگامہ خیزصدی تھی۔  اس صدی کا اختتام بھی بڑے ڈرامائی واقعات کے ساتھ ہوا۔

نوے کی دھائی میں سویت یونین اور چین کے سیاسی اور معاشی  نظریے اور پالیسیوں میں تبدیلی نے دنیا میں ایک نیا ماحول پیدا کیا۔  اس تبدیلی سے دنیا میں لبرل جمہوریت کے نظریات کو فروغ کا موقع ملا۔ اورصدی کے اختتام تک دنیا بھر میں لبرل جمہوریت کا نظریہ یا رحجانات بڑی حد تک مقبولیت حا صل کر چکے تھے۔  اگرچہ لبرل جمہوریت کوئی مثالی نظام نہیں تھا، اس کے زیرانتظام بنی نوع انسان کے سارے مسائل حل نہیں ہوئے تھے۔  اور نہ ہی اس نظام کے پاس انسانی نسل کو درپیش تمام سولات کے جوابات تھے۔ مگر پھر بھی جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا کی اکثریت لبرل جمہوریت پر ایمان لا چکی تھی، اور اس کو اپنی ایک عظیم کامیابی اورقیمتی اثاثہ سمجھتی تھی۔

 شروع شروع میں اس نظام کے بارے بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا۔  ترقی یافتہ دنیا تو خوشحالی کی نئی بلندیوں کو تو چھو ہی رہی تھی۔  تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں بھی امید کی ایک نئی کرن نظر آ رہی تھی۔  ہرطرف رجائیت پسندی تھی۔ سماج سے منفی قوتیں اورمنفی رویے کم ہو رہے تھے۔  انتہا پسند اور بنیاد پرست قوتیں پسپائی پر مجبور تھِیں، اور بڑے پیمانے پرغیرمتعلق ہو رہی تھِں۔

عام خیال یہ تھا کہ دنیا سوشلزم اور سرمایہ داری کی روایتی لڑائی سے نکل کر ایک نئےنظام کی تعمیرپرمتفق ہو چکی ہے۔  اور یہ اتفاق اتنا مضبوط ہے کہ مستقبل میں لبرل جمہوریت کو کسی قابل زکر چیلنج ہا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ کم از کم اتفاق جن مشترکہ قدروں پر ہوا تھا ان میں لبرل جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی و سماجی انصاف شامل تھا۔  مگر بد قسمتی سے بنی نوع انسان کا یہ خواب بھی پوری طرح شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی بکھرنا شروع ہو گیا۔

 کچھ ممالک میں منتخب شدہ جمہوری حکومتوں نے جمہوریت کش اقدامات شروع کر دیے۔  اپنے اپنے ملک پرایسا نطام مسلط کیا، جس میں انتخابات ہوتے ہیں، پارلیمان بنتی ہے، صدر اور وزیر اعظم ہوتے ہیں، مگریہ سارا بندوبست اس طریقے سے چلایا جاتا ہے، جس کو کچھ بھی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے، مگر جموریت نہیں۔  یہ مطلق العنانیت کی جدید اورپیچیدہ شکلیں ہیں۔  اس جمہوریت کش کاروائی میں کئی ممالک شامل ہیں، جن کا باری باری آئندہ کالموں میں تجزیہ کیا جائے گا،  مگر آج کے کالم میں مثال کے طور پر ہم صرف ہنگری کا ذکر کریں گے، تاکہ عوام یہ دیکھ اور سمجھ سکیں کہ ہمارے اس جدید دور میں کس طری جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں، اور جمہوریت کے نام پر مطلق العنانی قائم ہو سکتی ہے، جسے کچھ دانشور سافٹ فاشزمیعنی نرم فسطائیت کہتے ہیں۔

 اس سے پہلے ہنگری کی ایک تھوڑا سا تاریخی پس منظر تاکہ پوری تصویر واضح ہو۔ ہنگری کے لیے مطلق العنانیت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔  اس پر منگول، ترک، روسی، ہسبرگ، فاشسٹ اور آخر میں سویت یونین کی حکمرانی مسلظ رہی ہے۔ ہنگری کے لوگوں نے غیر ملکی قابض قوتوں اوراپنے جابراورمطلق العنان حکمرانوں کے طویل سیاہ دور دیکھے ہیں۔  سال 1989 میں دیواربرلن کے گرنے اورسوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ہنگری نے جمہوریت کے راستے پر چلنا شروع کیا۔

 اگلے دوعشروں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ ہنگری میں ایک قابل رشک پارلیمانی نظام، ایک آزاد میڈیا، ایک آزاد عدلیہ اورحکومتی معاملات میں عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت پر مبنی ایک جمہوری نظام قائم ہو چکا ہے۔  یہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ2010 میں ہنگری کے لیڈروکٹرآربن نے اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت پر حملے شروع کر دیے۔  ان حملوں کی وجہ کیا تھی ؟

وکٹر1998 سے لیکر 2002 تک ہنگری کا وزیر اعظم رہ چکا تھا۔  اس دوران اس کا کردارجمہوری اورمثبت تھا۔  اس نے ہنگری کو یوروپین یونین مین شامل کرایا۔  نیٹو میں ممبرشپ لی۔  مگر دوسری بار انتخابات میں ا سے بری طرح  شکست ہوئی۔  یہ شکست کھانے کے بعد اس نے رد عمل کے طور پردائیِں بازو کے قوم پرستانہ اور شدت پسند نظریات کو اپنا لیا۔  اس تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے جوزف ڈیبرزی نے وکٹر کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ عموما اچھے سیاست دانوں کو طاقت تباہ کر دیتی ہے ، مگر وکٹر کے معاملے میں اس کے بر عکس ہوا۔  یہاں اختیار اور طاقت چھن جانے نے اسے تباہ کر دیا۔

  اپنی شکست کے بعد اس نے کھلے عام اور واضح طور پرمیڈیا اورجمہوری تکثیریت کواپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ اس نے اعلان کیا کہ اسے جب اختیارملا تو وہ میڈیا اورتکثیریت پسندی کا بندو بست کر دے گا ؛ چنانچہ2010 کی اس کی انتخابی مہم نفرت اور دشمنی کا زہر پھیلانے پر چلی۔ اس نے ہنگری کے لوگوں کے ان جزبات کو ہوا دی جوبیرونی حملہ آوروں کے جبراورظلم  کی وجہ سے ان میں موجود تھے۔  ان جزبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور باہر سے آنے والوں کو بلا امتیاز ظالم جابر قرار دیا۔  خواہ اس میں باہر کے ممالک ہوں یا ہنگری میں پناہ کی تلاش میں آنے والے غریب غیرملکی لوگ ہوں۔

 اس نے پہلہ حملہ یوروپین یونین پر کیا، جس میں خود اس نے اپنی حکومت میں بڑی تگ و دو کے بعد شمولیت اختیار کی تھی۔  برسلز کو اس نے نیا ماسکو قرار دیا۔  اس نے اسلاموفوبیا اور دہشت گردی کے خوف کو ہوا دی۔  اس نے لبرل جمہوریت کی جگہ اللبرل یعنی غیر لبرل جمہوریت کا تصور دیا،  جو ووٹ اور مطلق العنیت پر مشتمل ایک آرویلین منافقت کا ملغوبہ تھا۔

انتخاب جیتنے کے بعد اس نے پہلا حملہ میڈیا پر کیا۔  اس مقصد کے لیے اس نے سیاسی اورمعاشی دباوکا ستعمال کیا۔  آزادی اظہار رائے کے خلاف انتہائی سخت ظالمانہ قاعدے و قانون بنائے، سنسنرشپ کو سخت کیا، اورسرکاری سطح پر ڈس انفارمیشن کی مہم چلائی۔  اس کا دوسرا نشانہ عدلیہ بنی۔  اس نے عدالتوں کے داہرہ اختیار کو محدود کیا۔  ججوں کی تقرری اور ریٹائرمنٹ کے  بارے میں نئے قوانین بنا کر عدلیہ کو قابو کر لیا، کٹھ پتلی جج تعینات کیے۔ اس نے تیسرا حملہ سول سوسائٹی پر کیا۔ اس نے الزام لگایا کہ سول سوسائتی کی تنظیمیں غیرملکی مفادات کی نگہبان ہیں، اور باہر سے فنڈنگ لیتی ہیں۔ ان کو غیر قانونی قرار دیکر چپ کرا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سوچ و فکر کی آزادی کو بھی سلب کر دیا۔  اس مہم میں وہ اس حد تک چلا گیا کہ ایک یورپین یونیورسٹی کو ہنگری چھوڑکر چلے جانے پر مجبور کر دیا۔

ان تمام اقدامات کے ذریعے اس نے ملک میں سافٹ فاشزم قائم کر دیا۔  اب اس کے خلاف اگر کوئی مزاحمت ہو رہی ہے تو اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ اور سوشل میڈیا کی مدد سے ہنگری کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد مزاحمتی تحریک کاحصہ بن رہی ہے۔  یہ تحریک عوام کو یہ امید دلا رہی ہے کہ شاید وہ اپنے چھنے ہوئے جمہوری اور شہری حقوق، چھنی ہوئی آزادیاں،  مسخ شدہ اورزنجیروں میں جکڑی ہوئی جمہوریت کو واپس لینے میں کامیاب ہو جائیں۔  ہنگری کی کہانی میں سبق یہ ہے کہ سافٹ فاشزم کا خطرہ ہر وقت موجود ہوتا ہے، جس سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔

♣  

Comments are closed.