نیتن یاہو پر بدعنوانی کی فرد جرم عائد

اسرائیلی اٹارنی جنرل نے عبوری وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پر کرپشن، رشوت لینے اور اعتماد شکنی کی فرد جرم عائد کر دی ہے۔ الزام عائد کیے جانے کے بعد اسرائیل کا سیاسی بحران مزید گھمبیر ہو گیا ہے۔

اسرائیل کا سیاسی نظام  جمعرات اکیس نومبر کو ایک پیچیدہ بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اس کی وجہ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پر کرپشن الزامات کی فرد جرم عائد کیا جانا ہے۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے سے ایک روز قبل ہی نیتن یاہو کے بعد وزارت عظمیٰ کے ایک اور امیدوار بینی گینٹس نے حکومت تشکیل دینے سے معذوری ظاہر کر دی تھی۔

اسرائیل کے اٹارنی جنرل ابیخائی ماندل بلیت کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بینجمن نیتن یاہو کے خلاف رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد شکنی کے جرائم کے ارتکاب پر عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔

اس فیصلے کے حوالے سے خود اٹارنی جنرل ماندل بلیت واضح کیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ بھاری دل سے کیا کیونکہ نیتن یاہو کے خلاف موجود قانونی شہادتیں مضبوط ہیں۔ ماندل بلیت کے مطابق قانون کی دنیا سیاست نہیں بلکہ اس میں حقائق اور شواہد اہم ہوتے ہیں۔

بینجمن نیتن یاہو نے ان الزامات کی ایک مرتبہ پھر تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور اُن کا ضمیر مطمئن ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے الزامات عائد کیے جانے کو سیاسی سازش قرار دیا کیونکہ مخالفین سچ کی تلاش میں نہیں بلکہ اُن کے تعاقب میں ہیں۔ نیتن یاہو نے مطالبہ کیا کہ ضرورت اس کی ہے اُن کے خلاف تفتیش کرنے والوں کے خلاف اب انکوائری کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

اسرائیل میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ منصب پر فائز کسی وزیراعظم پر کرپشن الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ نیتن یاہو نے ان الزامات کے تحت اپنے منصب سے مستعفی ہونے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ انہیں اپنی سیاسی جماعت لیکوڈ پارٹی کے اندرونی حلقے کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔

لیکوڈ پارٹی کے ایک سینیئر سیاستدان گیدون ساعر نے کہا ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل پارٹی کی قیادت کے لیے انتخابات کرائیں جائیں۔ ساعر کو بیس برس قبل سیاست میں نیتن یاہو ہی لائے تھے۔ پار لیمانی نشستوں کے اعتبار سے اسرائیل کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے رہنما بینی گینٹس نے بھی کہا ہے کہ الزامات عائد کیے جانے کے بعد نیتن یاہو کے پاس اخلاقی اعتبار سے اختیار نہیں رہا کہ وہ قوم کی تقدیر کے فیصلے کریں۔

DW

Comments are closed.