کیا مولانا فضل الرحمن کا دھرنا عوام کو ریلیف دے سکے گا؟

عمران حکومت کا قیام ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا پراجیکٹ تھا جو بری طرف ناکام ہو چکا ہے۔ریاستی ایجنسیوں نے کئی سالوں کی محنت کے بعد جو قومی لیڈر تیار کیا تھا وہ اقتدار میں آکر ناکام ہو چکا ہے۔جس کی بنیادی وجہ روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہے۔ حکومتی اخراجات پورا کرنے کے لیے توانائی ، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو مہنگا سے مہنگا کرنا ہے ۔ اور ان میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، کرپشن اور مہنگائی ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے جھوٹے نکلے۔

ملکی صورتحال سے تنگ شہری مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ یا دھرنے کے ذریعے کچھ ریلیف ملنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔لیکن کیا مولانا کا آزادی مارچ عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گا؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور بعد ازاں دھرنے کو پاک فوج کے ایک دھڑے کی حمایت حاصل ہے جو جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن سے خوش نہیں۔ لہذا فضل الرحمن کا دھرنا کامیاب ہوتا ہے یا ناکام ایک بات طے ہے کہ پاک فوج سیاست پر اپنی گرفت چھوڑنے کوتیار نہیں۔ اس دھرنے سے شاید کچھ چہرے تو بدل جائیں مگر پاکستانیوں کے معاشی حالات میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔

پاکستان کے لیفٹسٹ اور رائٹسٹ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذمہ دار عالمی مالیاتی اداروں کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں لیکن ریاستی وسائل پر قابض اس محکمے کو کوئی دوش دینے کو تیار نہیں جس کی بدولت پاکستان نہ صرف عالمی طور پر تنہا ہوچکا ہے بلکہ معاشی طور پر دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ پاکستانی عوام کے وسائل پر ڈاکہ سیاستدانوں یا عالمی معاشی اداروں نے نہیں بلکہ اس محکمے نے ڈالا ہے جو دفاع کے نام پر ہتھیاروں کے انبار جمع کرتا ہے اور اس خطے میں مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعے بدامنی قائم کیے ہوئے ہے۔

ان سرگرمیوں کی بدولت ریاست میں کوئی پیداواری سرگرمی نہیں ہے ۔ قومی وسائل اور بیرونی قرضے پیداواری سرگرمی میں صرف ہونے کی بجائے ہتھیاروں کے حصول پر صرف ہور ہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگلے سال مزید قرضوں کے لیے کشکول اٹھایا جائے۔

پاکستان کی جمہوری حکومتوں کا یہی جرم ہے کہ وہ نہ صرف دفاعی اخراجات کم کرنا چاہتی ہیں بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک سے دو طرف تجارتی تعلقات بھی قائم کرنا چاہتی ہیں جنہیں بندوق والے برطرف کردیتے ہیں۔

جمہوریت دشمن ایک جواز اور گھڑتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ایسٹبلشمنٹ سے کمپرومائز کرتی ہیں۔یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسٹیبشلمنٹ سے کمپرومائز کرتی ہیں لیکن وہ اس کمپرومائز میں بھی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سیاست بلیک اینڈ وائٹ کا کھیل نہیں اس میں گرے ایریاز ہوتے ہیں اور سیاست دان کا کام یہی ہے کہ وہ اس سے کیسے فائدہ اٹھاتا ہے۔ مثلا اٹھارویں ترمیم پیپلز پارٹی کی حکومت کا وہ کارنامہ ہے جس نے صوبوں کو خود مختار بنایا اور آج یہی ترمیم پاک فوج کے وسائل ہتھیانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

پاکستان کی سابقہ جمہوری حکومتوں کا یہی جرم ہے کہ وہ دفاعی اخراجات کم کرنا چاہتی ہیں، شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کرکے ہمسایہ ممالک سے دو طرفہ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جنہیں بندوق والے برطرف کردیتے ہیں۔

پاکستان کے عوام کی خوشحالی اس وقت ممکن ہے جب پاکستانی ریاست ہمسایہ ممالک سے نہ صرف دوستی بلکہ دوطرفہ تجارت کو ممکن بنائے جب تک ایسا نہ کیا گیا پاکستان اور اس کے عوام کبھی معاشی طور پر خوشحال نہیں ہو سکتے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی فوج کا سائز کم کیاجائے، دفاعی اخراجات کم کیے جائیں اور مہلک ہتھیاروں کو تلف کیا جائے۔

محمد شعیب عادل

Comments are closed.