موسیقی کیا ہے؟

خالد تھتھال

دنیا بھر کی موسیقی دو ستونوں پر قائم ہے، ایک ستون کو سُوَر” ( جسے ہم اکثر سُر کہتے ہیں) اور دوسرا ستون لےہے۔سُر آوازوں کے مختلف درجے ہیں، جن کی خاص ترتیب سے تمام گانے ، دھنیں اور راگ راگنیاں ترتیب پاتی ہیں۔آوازوں کی اکٹھا کر کے ایک خاص درجہ بندی کی گئی ہے، جسے ہماری ہاں سپتک اور مغربی میں سکیل کہا جاتا ہے۔

سُر کو مغرب میں نوٹ کہا جاتا ہے اور امریکہ میں ٹون۔ ٹون اور ٹیون دو مختلف چیزیں ہیں۔ ٹون کا مطلب سُر اور ٹیون کا مطلب دُھن، نغمہ وغیرہ۔ فلاں گانے کی دُھن یا ٹیون مجھے بہت پسند ہے۔
سروں کی مزید تقسیم ہوئی ہے۔ جنہیں ہم شُدھ اور کومل کے نام سے جانتے ہیں۔ یورپ میں انہیں بڑی اور چھوٹی نوٹس کہتے ہیں۔ امریکہ میں انہیں بڑی اور چھوٹی ٹونز کہا جاتا ہے۔ ایک اور تقسیم بھی ہے جسے ہمارے سُرتیان کہتے ہیں اور یورپ میں مائکرو نوٹس اور امریکہ میں مائکرو ٹونز کہا جاتا ہے۔

انہیں سُروں کو ادا کرنے کے لیے مختلف ساز وجود میں آئے، اور لے کے لیے بھی مختلف ساز بنے۔ سب سے پہلی بات: کہ انسانی گلا ان سب سازوں سے افضل ہے، بہترین ہے۔

لے کے سازوں میں ہمارے ہاں طبلہ، ڈھولک، پکھاوج، ڈھول وغیرہ جیسے ساز ہیں اور مغرب میں مختلف قسم ڈرمز وغیرہ ۔

سُر کی ادائیگی کے لیے سازوں کی بہت بہتات ہے۔ بلکہ ان کو تین اقسام میں تقسیم کرنا چاہیئے۔

وہ ساز جنہیں گز سے بجایا جاتا ہے، جیسے سارنگی، دلربا، اسراج، تار شہنائی، سارندہ، مغرب میں وائلن و وائلا جیسے ساز۔

وہ ساز جو پھونک یا ہوا کی مدد سے بجائے جاتے ہیں، ان میں بنسری، شہنائی،الغوزہ اوبو کلارنٹ، سیکسو فون بیگ پائپ ( جنہیں ہمارے ہاں مشک بھی کہتے ہیں، پرانے وقتوں میں شادیوں پر بجایا جاتا ہے۔ سکاٹ لینڈ کا روایتی ساز ہے) وغیرہ۔ ہوا سے بجنے والوں میں ہارمونیم ، اکارڈین وغیرہ۔

تار کے ساز جیسے ستار، سرود، ردھر وینا، سرسوتی وینا، وچتر وینا، رباب اور مغرب میں گٹار۔ چند ساز جیسے پیانو بھی تار کا ہی ساز ہے، گو اس کی ظاہری ہیئت ہارمونیم جیسی ہے لیکن اصل میں جب کی” کو دبایا جاتا ہے تو اندر چھپی ہوئی تاروں کو ضرب لگنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک ساز سنتو ہے۔ جسے کبھی شت تنتری وینا کہا جاتا ہے یعنی ایسی وینا جس کی سو تاریں ہوں۔ یہ ساز بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران (سنتور لفظ کا ماخذ ہی ایران ہے)، یونان، اور پتہ نہیں کن کن ملکوں میں کس شکل میں پایا جاتا ہے۔

سنا ہے رومانیہ یا شائد بلغاریہ میں کینٹیلی کے نام سے یہ ساز موجود ہے۔ اس ساز کے بنیاد وہی ہے جو پیانو کی ہے، پیانو کی تاروں پر بھی کی” دبنے سے ضرب لگتی ہے ۔ سنتور میں بجانے والے کے ہاتھ میں اخروٹ کی لکڑی کی دو ڈنڈیاں ہوتی ہیں جن سے وہ سنتور کی تاروں کو ضرب لگا کر آواز پیدا کرتا ہے۔

سنتور کی سو تاریں ہوا کرتی تھیں، یہ کشمیرکا روایتی ساز تھا، لوک دھنیں اور صوفیائی کلام کے ساتھ سنگت کے طور پر استعمال ہوا کرتا تھا۔ پنڈت شیو کمار جی نے اس ساز میں تبدیلیاں کیں، دس بارہ تاروں کا اضافہ کیا، بجانے کی ٹیکنیک میں تبدیلیاںلائیں، ساز کی خامیوں کو دور کر کے اس پر کلاسیکی موسیقی بجانی شروع کی۔

پنڈت شیو کمار تعلیم کے حوالے سے ایم ۔اے ۔ اکنامکس ہیں۔ لیکن سنتور بجاتے ہیں۔ اگر کسی دوست کے لیے یہ نام اجنبی ہو تو فلم سلسلہ اور چاندنی وغیرہ کے موسیقاروں کی جوڑی شیو ہری کو یاد کریں، یہ شیو ہری جوڑی کے شیو ہیں۔ اور ہری پنڈت ہری پرشاد چورسیا ہیں۔

ایک ساز اور بھی ہے گو وہ اتنا اہم نہیں ہے، لیکن اُس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ان تمام کیٹیگوریز میں نہیں آتا ، وہ اپنی طرز کا اکیلا ہی ساز ہے، یعنی جلترنگ۔ جلترنگ اصل میں مٹی کے مختلف سائز کے پیالے ہوتے ہیں، جس میں مختلف مقدار میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ اور لکڑی کی چھوٹی چھوٹی ڈنڈیوں سے ان پیالوں کو ضرب لگائی جاتی ہے۔ اگر کسی نے برسات کے موسم میں بارش کے خاتمے کے بعد کھڑے ہوئے پانی پر درخت سے وقتاَ فوقتاََ گرتے قطروں کی آواز سنی ہے تو وہ آواز جلترن کی ہے۔

اتنی لمبی تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شیو کمار اور ہری پرشاد 1973 میں سٹاک ہوم،سویڈن کے دارالحکومت آئے تھے، وہاں ان کا ایک ایل پی ریکارڈ بنا تھا، جو میں نے خریدا تھا اور مجھے بہت پسند آیا تھا۔ میرے گھر اس قدر بجا کہ چند ہی ہفتوں میں خاصا ضعیف لگنے لگا تھا۔ کل یو ٹیوب پر اتفاق سے اُسی ایل پی کی ریکارڈنگ مل گئی۔

آپ بھی اس پھونک کے ساز اور تار کے ساز کا تال میل دیکھیں، شیو ہری کی جوڑی نے کیا رنگ بکھیرے ہیں۔ یہ راگ جھنجھوٹی ہے، جھنجھوٹی کے تعارف کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ مہدی حسن نے اپنی مشہور زمانہ غزل گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلےاسی راگ میں رچی تھی۔

https://www.youtube.com/watch?v=htmEGHQ_98k&fbclid=IwAR1Kgi5sgk8Df9oDtgwjozU5B8jVf7an4waQGHz5EikFPnPOVIHl16pn91A

Comments are closed.