اُستاد ناشناس اور کاپی کا فن‎

جہانزیب کاکڑ

ہم بعض اوقات چیزوں کی اثر وقبولیت کےمتعلق مطلق معیارات قائم کر لیتے ہیں گویا انہیں دیگر عوامل سے رشتہ واثر لیے بغیراپنے  آپ سے ہی متعین واخذ ہونا چاہیے۔اور یہی وہ نقطہء نظر ہے جسکی وجہ سے کسی عمل کا اصل مقام متعین کرنے میں دشواری پیش آجاتی ہے۔

یہی حال موسیقی وفنِ گلوکاری کا ہے کہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسکی تخلیقی و صوتی ترکیب،سروں کا انتخاب، اور  کلام کی موزونیت ہر شئے کو مکمل طور پر درست اور اخذ بالذات ہونا چاہیئے۔ فی الحقیقت ان مذکورہ بالا عوامل کی مکمل درستگی کا تعلق اُستادانِ فن کے سابقہ تخلیقی فن پاروں اور تعینِ معیارات  سے ہے جس سے انکی مکمل درستگی اور انوکھا پن زرا خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ مگر اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ تخلیق کاروں کو خوب سے خوب تر کی تلاش  بند اورترک کردینی چاہیئے۔

اُستاد ناشناس پشتو کے اُن نامور گلوکاروں میں سے ایک ہیں کہ جن کی خود رو اکتسابی کوششوں اور تخلیقی جینیاتی خوبیوں نے اُنہیں بھی شاید یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ گویا تخلیقی سفرمیں اُنکا کوئی اُستادیا مرشد نہیں ہے۔حالانکہ وہ خود بھی تحصیلِ موسیقی نامی کتاب، جسے کسی اُستادِ فن نے ہی لکھا تھا، اُستادوں کی صحبت، اور خود اُسکی موضوعی خوبیاں، بھی تو آخری تجزیے میں ماحول کا حصہّ شمار ہوتی ہیں لیکن مطلق معنوں میں نہیں۔ جِس میں اُستاد ناشناس کی فنکارانہ خوبیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ا

ُن کے فنِ گائیکی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے انڈیا کے نامورگُلوکار، سہگل کو کاپی کیا کرکے کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اور  کاپی بھی ایسا کہ سیم ٹو سیم۔ حالانکہ غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ من وعن کاپی کرنے کافن بذاتِ خود ایک بڑے تخلیقی کام سے کم نہیں ہے کیونکہ کاپی کا فن اور پھر اسکی تخلیقی برت کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اور پھر اُستاد ناشناس نے سہگل کو من وعن کاپی کرکے اگر ایک طرف کمال تخلیقیت کا ثبوت دیا ہے جس نے پشتو زبان و گائیکی کو پہلی بار آوازِ سہگل کے رچاو اور اُسکی شیرینی سے آشنا کردیا۔ تو دوسری طرف کاپی کرنے کا عمل مطلق قابلِ اعتراض نہ ہونے کیساتھ ساتھ اسکے تخلیقی برتاو  کے فوائد پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوگیا۔
سُر،لے اور اِچھی شاعری کی سمجھ کو اُستاد ناشناس کا طرہء امتیاز سمجھا جاسکتا ہے۔ جس پر اِن کے باطنی صوفیانہ خاصے کا بھی بڑا اثر ہے جسے اُنہوں نے کسی سے کاپی نہیں کیا۔ البتہ پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھتے ہوئے دیوانِ رحمان و ارمغانِ خوشحال سے استفادہ ضرور کیا۔

سائنسی آلاتِ موسیقی کے تعارف نے اگر کاپی پیسٹ کے فن کو عام کردیا تو اِس سے لوگوں کے دلوں کو وہ اطمینان اور سرخوشی نصیب نہ ہوسکی، اور کائناتی آھنگ وتناسب کے احساس کیلئے رہ رہ کر آوازِ ناشناس سے بار بار رجوع لارہے ہیں۔ بلاشبہ وقت کیساتھ ساتھ معیارِ زمانہ بدل جاتا ہے مگر تخلیق کی کاپی اور کاپی کی تخلیق کا کُلی معیار اور بنیاد سدا ایک رہتا ہے۔

Comments are closed.