علامہ محمد اسد کون تھے؟

لیاقت علی


عام طور پرخیال کیا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس نوزائیدہ ریاست کو قرون وسطی کے مذہبی تصورات اور عقائد کے مطابق بنانے اور چلانے میں علمائے کرام نے اہم اور بنیادی رول ادا کیا تھاحالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

جس شخص نے پاکستانی ریاست کی مذہبی سمت کا تعین کرنے کا اہم اور بنیادی رول ادا کیا تھا وہ نسلی اور لسانی طورپر بر صغیر سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہودی النسل لیوپولڈ ویز آسٹرو ہنگرین سلطنت کا شہری تھا۔ جرمن اور پولش اس کی مادری زبانیں تھیں۔ اس نے تھوڑی بہت جو تعلیم حاصل کی وہ موجودہ آسٹریا میں حاصل کی تھی۔ وہ مختلف چھوٹے موٹے کام کرتا رہا جن میں فلم سکرپٹ لکھنے سے لے کر مختلف جرمن اخباروں کی نامہ نگاری شامل تھی۔

سنہ1900 میں پیدا ہونے والے لیوپولڈ نے 1926 میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام محمد اسد رکھا لیا تھا۔ وہ سعودی بادشاہت کے بانی ابن سعود کے بہت قریب تھا اور اس کی ایما پر اخوان المسلمین کی جاسوسی کی خاطر کویت بھی گیا تھا۔ وہ 1933 میں ہندوستان آیا تھا اور یہاں کافی عرصہ قیام پذیر رہا ۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر انگریز سرکار نے اسے جرمن جاسوس ہونے شبے میں گرفتار کرلیا اور وہ تین سال جیل میں رہا۔

جیل میں قیام کے دوران اس کی بیوی اور بیٹا چوہدری نیاز احمد جنھوں نے بعد ازاں مولانا مودودی کو جماعت اسلامی کا مرکز پٹھان کوٹ میں قائم کرنے میں مدد دی تھی کے مہمان رہے تھے۔ علامہ اسد کا تصوراسلام بادشاہت اور جاگیردارانہ مفادات کے تابع تھا وہ اسلام کی ایسی تعبیر پر یقین رکھتے تھے جوجمہور مسلمان عوام کے مفادات اور مطالبات سے متصادم تھی۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستان کا پہلا پاسپورٹ انھیں جاری ہوا تھا۔وہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قریب تھے۔ علامہ اسد چونکہ جاگیرداری نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق جواز فراہم کرتےتھے اس لئے مسلم لیگی جاگیرداروں کے قریب تھے۔

پنجاب کے پہلے وزیر اعلیٰ نواب افتخارحسین ممدوٹ نے ان کی سربراہی میں ایک محکمہ بنایا تھا جس کانام تھا ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کسٹرکشن۔ اسے موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کا پیش رو ادارہ کہا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں انھیں وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے ڈیسک کا انچارج بنادیا گیا اور پھر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب۔

جنرل ایوب اورجنرل ضیا ء الحق کا شمار ان کے مداحین میں ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء کے مارشلائی عہد میں انھوں نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا اور مختلف شہروں میں انھوں نےلیکچرز دیئے اور ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ علامہ اسد نے تین شادیاں کیں، انھوں نے اپنا زندگی کا بیشتر حصہ یوروپ اور امریکہ میں گذارا اور 1992 میں ان کا سپین میں انتقا ل ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔

Comments are closed.