عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا کس حد تک ممکن ہے؟

رحمان بونیری

ہر چند کہ پارلیمان میں عددی اکثریت اور فوج کی کھلی حمایت کی وجہ سے عمران خان کی حکومت خاصی مضبوط دکھائی دے رہی ہے مگر حکومت مخالف اور حکومتی راہنماؤں کی ُتند و تیز اور دھمکی آمیز بیانات نے پاکستان کے بے چین سیاسی ماحول کو مزید مضطرب کردیا ہے۔

حکومت مخالف، نو سیاسی جماعتوں کی رھبر کمیٹی نے مولانا فضل الرحمان کی طرف سے عمران خان سے استعفیٰ کے مطالبے کی تائید کی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما اکرم خان درا نی نے کہا کہ حزبِ اختلاف کے مقاصد واضح ہیں ۔“عمران خان مستعفی ہو، ازسرِ انتخابات کرائے جائیں اور فوج غیر جانب دار رہے”۔

اکرم درانی کے مطابق حزب اختلاف کی تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے احتجاج جاری رہے گا۔

انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ بطور احتجاج اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفیٰ بھی دے سکتی ہے اور تجارتی مراکز کی تالہ بندی بھی ہو سکتی ہے۔

جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے حزبِ اختلاف کے مطالبات کو رد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ادارے خاموش تماشائی نہیں ہو نگے۔

اسلام آباد میں دیگر حکومتی وزیروں کے ساتھ پریس کانفرنس میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا وزیراعظم عمران خان استعفی نہیں دینگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت رہبر کمیٹی کی دھمکیوں سے گھبرا نہیں رہی اور یہ کہ اداروں پر تنقید ناقابلِ برداشت ہیں۔ یاد رہے کہ اداروں سے مراد افواجِ پاکستان ہیں۔

پرویز خٹک نے حزبِ اختلاف پر الزام لگایا کہ انکو خوف ہے کہ اگر حکومت نے عوام کی خدمت کی تو انکی سیاست ختم ہوجائے گی۔وائس آف امریکہ کی پشتو سروس ڈیوہ سے ایک انٹرویو میں جب تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی انجینئر عثمان ترکئ سے پوچھا کہ حکومت نے ایسے کیا منصوبے بنا رکھے ہیں جس سے عوام تحریک انصاف کے مخالفین کو ہمیشہ کے لیے بھو ل جائیں گے تو انہوں نے کہا پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا، چائنا پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے ، اور مستقبل میں ترکی اور سعودی عرب انرجی کے میدان میں سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا حزبِ اختلاف حکومت کے لیے حقیقی چیلنج بن سکتی ہیں ؟ اس سوال پر پاکستان کے تجزیہ نگار دو واضح حصوں میں تقسیم ہیں۔

پشاور میں انگریزی روزنامہ ڈان کے بیورو چیف اسماعیل خان سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی رھبر کمیٹی کا لہجہ قدرے نرم تھا اور یوں محسوس ہو جیسے وہ فیس سیونگ کر رہے ہوں۔ انکے مطابق مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے مولانا کے ساتھ آخری حد تک نہیں جا ئیں گے۔ مولانا نے ایک روز قبل اپنی تقریر آخری حد کا ذکر کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ عوامی سیلاب وزیر اعظم ہاؤس میں گھس کر عمران خان سے اقتدار چھین لے گا۔

روزنامہ ڈان نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے راہنماؤں احسن اقبال اور فرحت اللہ بابر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ مولانا کے جلسے میں ساتھ تھے دھرنے میں شریک نہیں ہیں۔

اسماعیل خان کے برعکس مشہور پاکستانی ٹی وی جیو کے پروگرام جرگہ کے میزبان سلیم صافی کہتے ہیں کہ انہیں اقتدار کی ایوانوں میں بے چینی نظر آرہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت حزبِ اختلاف کی چال میں بری طرح پھنس گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے بروز جمعہ اپنی خطاب میں کسی ادارے کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ وہ ان سے لڑائ نہیں چاہتے لیکن وہ اپنی غیر جانبداری ثابت کریں۔

جس کے جواب میں فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ فضل الرحمان بتا دیں وہ کس ادارےکی بات کر رہے ہیں؟

جنرل غفور کا کہنا تھا کہ انکی حمایت جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہوتی ہے۔ فوج نےالیکشن میں آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کی۔ انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنے تحفظات متعلقہ اداروں میں لے کر جائیں اور سٹرکوں پر آ کر الزام تراشی نہ کرے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی کو ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

آج وزیر دفاع پرویز خٹک نے فوجی ترجمان کی طرح بہت واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے ادارے ہر جمہوری حکومت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ بیورو کریسی، فوج اور انتظامیہ کو حکومت سے الگ نہیں سمجھنا چاہیے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ریاستی اداروں کے خلاف بیان دے کر اچھا نہیں کیا۔ جس پر پاک فوج کے ترجمان کو اپنا ردعمل دینا پڑا۔

ہر چند کے عوامی طاقت کے سامنے بڑی بڑی طاقتیں ڈھ جاتیں ہیں مگر پاکستانی سیاسی تاریخ سے واقف تجزیہ نگار اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک کی طاقتور فوج جس حکومت کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے ا سے اقتدار سے ہٹانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

Comments are closed.