ذہنی مریض اور ہمارے معاشرتی رویئے 

ایمل خٹک 

گزشتہ دنوں میری بہن دُرشہوار خٹک جس کو ہم پیار سے بی بی کہتے تھے ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئی ۔ ہماری پیاری بی بی تو مر گئی مگر اس کی المناک موت نے بہت سے سوالات اٹھا دئیے ۔ مثلا ایک انسان کیسے پیار کرنے والے اور سب سے زیادہ اپنا خیال رکھنے والے شفیق ، مہربان اور غمگسار فرد کو مار سکتا ہے ؟ کیا ذہنی مریضوں کے ساتھ ہمارا انفرادی اور اجتماعی رویہ اور سلوک مناسب اور درست ہے؟ کیا ایسے مریضوں کے علاج اور خصوصی دیکھ بھال کیلئے سہولیات کافی اور انتظامات تسلی بخش ہیں؟ کیا ذہنی صحت اور ذہنی مریضوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے عوامی سطح پر مناسب آگاہی اور شعور موجود ہے ؟

یہ خونی داستان یا واقعہ صرف ہمارے ایک خاندان کا قصہ نہیں بلکہ ان ہزاروں خاندانوں کا قصہ ہے جہاں ذہنی مریض رہتے ہیں اور وہ اپنے قریبی افراد یعنی ذہنی مریضوں کی حالت ، تکالیف اور مشکلات کو دیکھ اور سہہ کر مسلسل درد اور کرب میں مبتلا ہیں ۔ ایک ذہنی مریض کی وجہ سے پورا گھرانہ اور خاندان ڈسٹرب رہتا ہے۔ قریبی افراد مسلسل اذیت اور کرب میں رہتے ہیں اور پل پل مرتے اور جیتے ہیں ۔ 

بی بی کی شہادت نہ تو کسی ذاتی تنازعے یا جائیداد یا کسی مسئلے پر اختلاف بلکہ ایک ذہنی مریض بھائی کی مرض کی شدت ، اعصابی دورے اور وقتی اشتعال کا نتیجہ تھا ۔ جب ایسے ذہنی مریض وقتی طور پر اشتعال میں آجاتے ہے تو جو بھی ان کے سامنے آتا ہے یا قریب ہو وہ اس پر وار کرتا ہے چاہے وہ بی بی کی طرح ہر وقت ان کی دیکھ بھال کرنے والی شخصیت کیوں نہ ہو۔ 

میرے خیال میں ایسے افسوسناک واقعات کے ذمہ دار ہم سب اور پورا معاشرہ ہے ۔یہ واقعات اس جانب اشارہ بھی کرتے ہیں کہ مریض کی دیکھ بھال یا علاج کے ضمن میں چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر کئی نہ کئی کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ ذہنی مریضوں کے بارے میں ہمارے معاشرتی رویئے منفی اور ان سے سلوک غیرمناسب ہے ۔ ہمیں سب سے پہلے ان مریضوں کے بارے میں اپنے رویوں پر نظرثانی کرکے ان کو درست کرنا ہوگا۔ اس طرح ذہنی مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجےکی سہولیات ناکافی اور خصوصی اداروں کی کمی اور فقدان ہے ۔

انفرادی سطح پر تو ہم نے تقریبا چالیس سالوں سے بھائی کا گھر میں علاج اور دیکھ بھال کی اور اپنے طور پر ان کے علاج کے سلسلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ مگر ذہنی امراض اور خصوصا مینٹل ہسپتال کے حوالے سے معاشرے میں موجود منفی تصورات کی وجہ سے جب بھی اس کو اسپتال میں داخل کرنے کی بات ہوئی تو بوجوہ گھر کے اندر مزاحمت ہوتی رہی ۔ اور یہ خدشہ اور ڈر رہتا کہ کئی وہ اسپتال جاکر مزید خراب نہ ہوجائے ۔ 

جس تناسب سے ملک میں ذہنی بیماریاں عام ہوتی جارہی ہے اس تناسب سے ذہنی مریضوں کی علاج معالجے کیلئے خصوصی انتظامات نہیں اور نہ عوامی سطح پر ایسے مریضوں کے حوالے سے مناسب شعور اور آگاہی موجود ہے۔ اگرچہ ذہنی بیماری بھی جسمانی بیماری کی طرح ایک بیماری ہے مگر ذہنی مریضوں کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ غیرمناسب اور بعض اوقات ذلت آمیز ہوتا ہے ۔ذہنی امراض کیلئے زیادہ سے زیادہ پرائیوٹ اور سرکاری اسپتالوں کی ضرورت ہے ۔

مریض چاہے ذہنی ہو یا جسمانی دونوں مظلوم ہیں اور ہماری توجہ کے مستحق ۔ بدقسمتی سے جسمانی کی نسبت ذہنی مریضوں کے ساتھ ہمارا رویہ بڑا افسوسناک اور منفی ہوتا ہے۔ ذہنی مریض کیلئے عمومی طور پر پاگل کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے ۔ پاگل کا لفظ بڑا توہین آمیز اور امتیازی لفظ ہے ۔ جس میں ذہنی مریض کو ایک وکٹم یعنی مظلوم یا مریض نہیں بلکہ ایک جارح یا ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے مریضوں کو زیادہ توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

ایسے مریض اکثر بہت حساس ہوتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو مائینڈ کرتے ہیں ۔ ہم بعض اوقات دانستہ یا غیردانستہ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو وہ بہت زیادہ مائنڈ کرتے ہیں ۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ ہمارا بھائی جب زیادہ تر وقت گھر کے اندر گزارتا تھا تو قدرےبہتر حالت میں ہوتا مگر جب اس کا رابطہ باہر دوستوں ، رشتہ داروں اور عام لوگوں سے پڑتا تھا تو اس کی حالت بگڑ جاتی تھی ۔

ایک تو ایسے مریضوں کو اپنی مرضی اور منشاء کے برعکس باتیں سن کر اور کام دیکھ کر غصہ آجاتا ہے اور دوسرا بعض دفعہ لوگ بھی خلوص اور نادانی سے ان سے ایسی باتیں کہہ دیتے کہ جس کا وہ منفی اثر لیتے ہیں ۔ اسلئے ایسے مریضوں سے احتیاط سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خصوصا ان کے ساتھ طنز یا مذاق آڑانے سے گریز کرنا چائیے ۔ 

بی بی تو مر گئی اور دو ہفتے بعد ذہنی بیمار بھائی بھی دوران حراست اسپتال میں فوت ہوگیا۔زیادہ امکان یہ ہے کہ اعصابی دورہ ختم ہونے اورہوش میں آنے کے بعد وہ بھی صدمہ برداشت نہ کرسکے ۔ جو بھی صورتحال ہو مگر اس المناک واقعے سے ہمارا پورا خاندان مسلسل ایک صدمے کی حالت میں ہے ۔ اس موقع پر دوست ، عزیز واقارب اور ہمدردوں نے ہر طرح سے ہمارا دکھ درد او غم بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ خدا ان کو اس کا آجر دے ۔ اور خدا ہمیں اس سانحے کو سہنے کا حوصلہ اور صبر اور برداشت عطا کرے ۔

ایسے صدمات کو جھیلنا کچھ آسان کام نہیں ۔ دعا ہے کہ خدا ہمارے دشمن کو کبھی بھی ایسے دن نہ دکھائے ۔ 

3 Comments