خصوصی عدالت کا تاریخی فیصلہ

محمدحسین ہنرمل

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سترہ دسمبرکادن جلی حروف سے لکھا جائے گا ۔سترہ دسمبرسے چندروز پہلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جب وکلا کے قومی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے تو ان کی تقریر کے کئی جملے اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ عنقریب عدلیہ تاریخ رقم کرنے والی ہے ۔جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ اب ماضی کو دفن کرچکی ہے یوں اب اہمیت کا حامل یہ ادارہ شفافیت اور انصاف پر مبنی فیصلے کرے گی۔

چیف جسٹس کھوسہ کے مذکورہ خطاب کے عین تین روز بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے پاکستانی آئین کو روندنے والے سابق ڈکٹیٹر کی آئین شکنی کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں سنگین غداری کیس میں سزائے موت کاپروانہ جاری کردیا۔ پرویزمشرف کے دفاع میں ان کے بہی خواہ لاکھ دلائل اور تاویلات پیش کر یں اور انہیں سنائی جانے والی سزا پر سیخ پاہوجائے لیکن سچی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کو اپنے دور کے بے شمار جرائم سے بری الذمہ قرار دینا ایک تاریخی بے انصافی کے مترادف ہے۔

جنرل پرویزمشرف حقیقت میں ایک رعونت پسند اور مستبدحکمران تھے جس نے اپنے مستبد دور حکومت میں نہ صرف منتخب حکومت پر فوج کشی کی بلکہ دو مرتبہ پاکستان کے آئین کو بھی معطل کرکے رکھ دیا۔سپریم کورٹ کے اسی وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بندوق کی نوک پر اپنے عہدے سے برطرف کرنا اور ججز کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کرنا بھی پرویزمشرف ہی کے سیاہ کارنامے تھے ۔ن

ائن الیون کے بعد امریکی صدر کے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہونے والے مشرف ہی توتھے جنہوں نے ملک کے ہوائی اڈوں کو امریکہ کے حوالے کرکے افغانستان پر امریکی چڑھائی اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سہولت کار کا کردار اداکیاتھا۔پوری دنیا میں کسی ملک کااپنے قریبی ہمسائے ملک کے سفیرکادشمن ملک کے حوالے کرنے کی مثال دنیاکی سفارتی تاریخ میں ملنامشکل ہے تاہم پرویز مشرف نے یہ کمال بھی کردیا۔

اسلام آباد سے افغان طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو برہنہ حالت میں امریکی افواج کے حوالے کرکے اس آمر نے پورے ملک کی ساکھ پر سوالیہ نشانات کھڑے کردیئے ۔ لال مسجدسانحہ کو لے لیں۔ وہاںبے شک قانون کو ہاتھ میں لینے والے عناصر موجودتھے لیکن اس مسئلے کاحل ہرگز یہ نہیں تھا کہ سینکڑوں معصوم بچیوں پر فوج کشی کرکے اسے گولیوں سے بھون ڈالاجائے ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیاقریب المرگ اور بزرگ سیاستدان اکبر بگٹی سے نمٹنے کا بھی صرف یہی ایک حل تھا کہ طاقت کے نشے میں دھت ہوکر انہیں ڈیرہ بگٹی کے غاروں میں بموں اورراکٹوںسے نشانہ بنایاجائے ؟

کیابارہ مئی کو کراچی میں درجنوں افراد کا قتل عام کرنا اور پھر اسے ’’طاقت کے مظاہر ے‘‘ کا نام دینااس آمرکا قابل معافی جرم تھا؟ دہشتگردوں کا نام نہاد لیبل لگاکر ہزاروں کی تعداد میں قبائلی پشتونوں کو ڈالروں کے بدلے امریکہ کے حوالے کرنا کونسے انصاف اور کونسی غیرت کی مثال تھی جسے سابق آمر نے رقم نہیں کی ۔پرویز مشرف کوسنائے جانے والی سزا کے بعداب کروڑوں پاکستانیوں کو عین الیقین ہوگیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخ رقم کردی ۔

البتہ اس فیصلے کی شدید مخالفت میں پہلے نمبر پر ملک کے عسکری ادارے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر جناب عمران خان صاحب اور ان کی اس ٹیم کی نظر میں یہ فیصلہ انصاف پرمبنی نہیں تھاجو پرویز مشرف کے باقیات سمجھی جاتی ہے۔ افواج پاکستان کا غصہ تو اتنا شدید تھا کہ جی ایچ کیومیںفوری طور پر ہنگامی اجلاس منعقد کرکے چندگھنٹے بعد آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کردی جس میں سابق آمر کو ایک عادل حکمران اور فرشتہ صفت انسان کے روپ میں قوم کے سامنے پیش کیاگیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عسکری ادارہ عدلیہ کو تہنیتی پیغامات بھیجتی کیونکہ ایسے فیصلوں ہی سے آئین زندہ وجاویدان ہوتی ہے لیکن صد افسوس کہ جواب شدید ناراضگی اور برہمی کی صورت میں آیا۔

فوج کی طرف سے اس فیصلے پر برہمی کے بعدزیادہ افسوس مجھے وزیراعظم عمران خان پر آیا جنہوں نے اس فیصلے کی مخالفت سے اپنی رہی سہی ساکھ کا جنازہ بھی نکال دیا۔ الحمدللہ آج انٹر نیٹ کی دنیا ہے اور ایک کلک پر آپ چند سیکنڈز میں کسی کے ماضی کا پورا ڈیٹا نکال سکتے ہیں ۔ آج کووزیراعظم اور کل کے اپوزیشن لیڈر عمران خان شایدان چند پاکستانی سیاستدانوں میں سے ایک تھے جوپرویز مشرف کاٹرائل کرنے اور اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی روز دہائیاں دے رہے تھے ۔ لیکن وقت آنے پر جناب عمران خان ایسے ڈھیر ہوگئے کہ الٹا سابق آمر کے دفاع پر اپنی پوری ٹیم سمیت اترآئے ۔

واہ خان صاحب ! کیا بات ہے ، تم نے اس مرتبہ اپنی سیاسی تاریخ کی کیاکمال کا یوٹرن لے لیا، واہ بھئی واہ ۔جمعرات کو سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ نے مشرف کی سزا کا تفصیلی فیصلہ سناکر مخالفین کو مزید اشتعال دیا۔ یہاں یہ بتاتاچلوں کہ تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقاراحمد سیٹھ کے ریمارکس سے اگرچہ بہت سے لوگ نیک شگون سمجھتے ہیں لیکن موصوف جج صاحب کے ان الفاظ سے اختلاف ہے ۔

بظاہر تو ایسے الفاظ سننے کو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن اس میں جذباتیت کے عنصر نے اس اہم فیصلے کی ساکھ کو نقصان بھی پہنچایا۔ ردعمل میں آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اپنی مختصر پریس کانفرنس مزید دوقدم آگے گئے اور اسے دشمنوں کی سازش قرار دی ۔ بلکہ اس پریس کانفرنس میں بات دھمکی تک پہنچ گئی جو ملک اور اداروں کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے ۔

Comments are closed.