توہین مذہب کے جھوٹے کیس میں ملوث جنید حفیظ انصاف کا منتظر ہے

توہين مذہب کے الزام ميں قيد بہاء الدين زکريا يونيورسٹی کے وزيٹنگ ليکچرر جنيد حفيظ کا کيس اختتامی مرحلے ميں داخل ہو چکا ہے۔ استغاثہ تمام گواہان کے بيانات عدالت ميں ريکارڈ کرا چکی ہے جبکہ اپنے دفاع ميں ملزم نے اپنے وکیل کے ذریعے بيان عدالت ميں جمع کرا ديا ہے۔

ہفتے کو سماعت کے دوران استغاثہ نے عدالت سے استدعا کی کہ کيس کو ملتوی کيا جائے کيونکہ ان کے پاس کيس کی پوری فائل موجود نہیں ہے جبکہ کچھ دستاويزات کی کاپياں نکلوانے کی بھی درخواست دی ہوئی ہے۔

ملزم کے وکیل نے اس درخواست کو استغاثہ کا تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ تاہم عدالت نے استغاثہ کو 12 دسمبر کو اپنے دلائل پیش کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ملزم کے وکیل کو 13 دسمبر کو دفاع میں دلائل کا موقع ملے گا۔

جنيد حفيظ کے وکيل اسد جمال کے مطابق ان کے موکل پر توہين مذہب کا الزام لگانا ان کے خلاف سازش تھی۔وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے اسد جمال کا کہنا تھا کہ جنيد ايک ذہين طالب علم تھے۔ طلبہ ميں مشہور تھے۔ جامعہ کی تقریبات، مباحثوں اور دوسرے ایونٹس ميں شرکت کرتے تھے اور ان کی ميزبانی بھی کرتے تھے۔

مارچ 2013 میں جنيد حفيظ کو توہين مذہب کے الزام ميں لاہور سے گرفتار کيا گيا۔ ان کا ليپ ٹاپ اور دوسری اشيا ضبط کرلی گئیں۔ايف آئی آر کے مطابق جس مبينہ توہین آمیز پوسٹ کی بنیاد پر جنید حفیظ کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا وہ پوسٹ کسی اور نے کی تھی۔

اسد جمال کے مطابق جنيد حفيظ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے اسے ڈیلیٹ نہیں کیا۔ لہٰذا وہ توہين مذہب کے مرتکب ہوئے۔ تاہم استغاثہ اب تک یہ الزام بھی عدالت ميں ثابت نہیں کر سکا ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے جنيد حفيظ کے وکيل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کو غيرضروری طور پر طوالت دی گئی۔ اب تک سات جج تبديل ہو چکے ہيں۔ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمہ کو ساڑھے چھ سال ہو گئے ہيں۔ ہم نے بڑی کوشش کی کہ يہ جلدی ختم ہو جائے کيونکہ 2015 ميں يہ کيس بڑی آسانی سے ختم ہو سکتا تھا ليکن کبھی گواہ نہیں آئے، تو کبھی پروسيکيوٹر نہیں تھے جب کہ کبھی جج، تو کبھی وکيل موجود نہیں تھے۔

ان کے مطابق جيسے ہی مقدمہ کسی منطقی انجام تک پہنچتا ہے تو جج تبديل ہو جاتا ہے۔

ياد رہے کہ اسد جمال سے قبل ايڈووکيٹ راشد رحمٰن بھی جنيد حفيظ کی کيس میں پيروی کر چکے ہيں جنہيں 2014 ميں قتل کر دیا گیا تھا۔اسد جمال کا کہنا تھا کہ اس کيس ميں جنيد حفيظ کے خلاف 26 گواہان کی فہرست بنائی گئی ليکن استغاثہ نے ان ميں سے 15 ہی کو چُنا۔

دوسری جانب پبلک پراسیکیوٹر ضیا الرحمٰن ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دن میں عدالت میں حتمی دستاویزات جمع کرا دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت سے استدعا کی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کریں تاکہ مزید تاخیر نہ ہو۔ بارہ دسمبر کو حتمی دستاویزات جمع ہونے کے بعد اسی روز یا 13 دسمبر کو دلائل مکمل ہو جائیں گے۔ضیا الرحمن ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ دلائل مکمل ہونے کے ایک دو روز بعد اس کا فیصلہ بھی آ جائے۔کیس میں تاخیر کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے کبھی تاخیر کی کوشش نہیں کی گئی۔

جنيد حفيظ کے والد حفيظ النصير ہفتے ميں ايک بار اپنے بيٹے سے ملنے ملتان سينٹرل جيل جاتے ہيں۔ زيادہ تر وہ اکيلے ہی ہوتے ہيں کيوں کہ جنيد کی کی والدہ کی طبيعت ٹھيک نہیں رہتی۔حفيظ النصير کے مطابق جنيد کيس کی طوالت کی وجہ سے بہت پريشان ہيں۔

حال ہی ميں حفيظ النصير نے سپریم کورٹ کے چيف جسٹس آصف سعيد کھوسہ کے نام ايک خط ميں جنيد حفيظ کی رہائی کی اپيل کی ہے۔ان کے مطابق ان کا بيٹا ايک جھوٹے مقدمے ميں چھ سال سے ملتان سینٹرل جيل کی کال کوٹھڑی ميں قيد تنہائی کی زندگی گزار رہا ہے۔

حفیظ النصیر کے بقول تین ستمبر کو مقدمے کے آخری گواہ کے بیان پر جرح مکمل ہوگئی تھی لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود اب تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ان کے بقول پراسيکيوشن نے ديگر پانچ مختلف قسم کی درخواستیں محض اس لیے جمع کرائیں تاکہ مقدمہ کا فيصلہ نہ ہوسکے۔

ايڈوکيٹ راشد رحمٰن کے قتل کے بعد جنيد حفيظ کی سيکیورٹی بھی مزيد سخت کر دی گئی ہے۔اسد جمال کے مطابق ان کے کمرے کی لائٹ 24 گھنٹے آن رہتی ہے۔ حتٰی کہ سونا بھی لائٹ آن کرکے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی اپنے موکل سے جيل ميں ہميشہ شيشے کے آر پار ملاقات ہوتی ہے اور گفتگو ٹيلی فون کے ذريعے ہوتی ہے جس سے ايک وکيل اور موکل کے درميان رازداری قائم نہیں رہتی۔

اسد جمال نے بتایا کہ توہین مذہب کے مقدمات ميں ٹرائل کے لیے اچھا وکيل نہیں ملتا۔ آسيہ بی بی کے کيس ميں يہی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔تمام تر تکليفوں کے باوجود اسد جمال جنيد حفيظ کو خوش قسمت قرار ديتے ہيں کہ کوئی تو ہے جو اس کے لیے آواز اٹھا رہا ہے۔

توہین مذہب کے الزام میں ملتان کی سینٹرل جیل میں قید بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر کا کہنا ہے کہ جنید جیل میں مشکل وقت گزار رہا ہے لیکن اس نے پڑھنا نہیں چھوڑا اور اب تک اس نے جیل میں پانچ ہزار کتابیں پڑھ لی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے راجن پور کے حفیظ النصیر پراعتماد ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا۔ ان کا خیال ہے کہ اب تک جتنی سماعتیں ہو چکی ہے اور جو گواہ پیش ہو چکے ہیں اور وکلا جس طرح کی جرح کر چکے ہیں، اس سے ہمیں لگتا ہے کہ میرے بیٹے جنید پر لگے الزامات جھوٹے ثابت ہوں گے۔

’’وہ اپنے اپنے حساب سے جھوٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگائے تھے۔ وہ صحیح ثابت نہیں کر سکے۔ انشاءاللہ ہمیں امید ہے کہ اسی کورٹ سے ہمیں بریت ملے گی اور میرا بیٹا جنید رہا ہو گا ۔

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ یہی کچھ جنید حفیظ کی فیملی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے جنید حفیظ کے والد کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آواز بھرا گئی۔

’’ہمارے خاندان نے بڑا مشکل وقت دیکھا ہے۔ ایک ایک پل بھاری رہا ہے۔ ہمارا وکیل قتل ہو گیا۔ ملتان میں کوئی وکیل کیس لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ہمیں لاہور سے وکیل کرنا پڑا۔ ہم بڑے مشکل حالات سے گزرے۔ سارا کاروبار تباہ ہو گیا۔ ساڑھے چھ سال ہو گئے ہیں، ہم پر ایک ایک پل بھاری رہا۔ ہمیں جنید سے ملنے میں بڑے مسائل رہے۔ شروع شروع میں ہمیں اپنی پرائیویٹ سیکیورٹی رکھنا پڑی۔ ہمیں ایک سال تو وکیل ہی نہیں ملا، کیونکہ یہاں کی ڈسٹرکٹ بار ملتان نے ایک قرارداد پاس کی کہ جنید حفیظ کا کوئی وکیل نہیں بنے گا۔ ہم بڑے پریشان رہے۔‘‘

’’ایچ آر سی پی نے راشد رحمان کو کہا کہ یہ وہ ہمارا کام کریں گے۔ راشد رحمان صاحب بھی کوشش کرتے رہے۔ جیل ٹرائل کے لیے ہم نے اپلائی کیا تھا۔ اللہ کا کرم یہ ہوا کہ راشد رحمان نے ہمیں جیل ٹرائل دلوا دیا۔ جیل ٹرائل کے بعد پہلی پیشی پر جو ہمارے مخالف وکیل تھے، انہوں نے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے راشد رحمان کو یہ دھمکی دی تھی کہ آپ یہ کیس کو چھوڑ دیں، ورنہ آپ کے لیے اچھا نہیں ہو گا بلکہ آپ اگلی پیشی پر نہیں آ سکیں گے، اور یہ بات انہوں نے جج کے سامنے کہی تھی اور ایسا ہی ہوا۔ اگلی پیشی پر ان کا قتل ہو گیا۔ پھر اس کے بعد ہمیں ایک سال تک وکیل نہیں ملا۔ پھر ہمیں لاہور سے ایک وکیل ملا ۔

چالیس سے 45 ہزار روپے ہمارے ایک پیشی پر لگ جاتے ہیں۔ میرا اچھا کاروبار تھا جب یہ واقعہ ہوا۔ میں بالکل تباہ ہوگیا ہوں۔ میرا کاروبار تباہ ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے سارے زیور بیچ دیے ہیں۔ میرے اپنے پلاٹ تھے وہ بھی میں نے بیچ دیے۔ میری ایک گاڑی تھی میں نے وہ بھی بیچ دی۔ شروع میں انہوں نے جنید کو ساہیوال جیل میں رکھا تھا۔ ایک سال تک مجھے ساہیوال جیل جانا پڑا۔ پھر اب وہ سنٹرل جیل ملتان میں ہے۔ ہم ذہنی طور پر بھی اپ سیٹ ہیں اور معاشی طور پر بھی ہم بہت اپ سیٹ ہیں۔ میرا ایک چھوٹا بیٹا ہے۔ اس کی اب سیلری شروع ہوئی ہے تو اب وہ ہمیں تھوڑا سا سپورٹ کر رہا ہے۔

’’لوگوں کو جب پتا لگا کہ اس قسم کا سنگین الزام لگا ہے، تو انہوں نے میرے ساتھ کاروبار کرنا بھی چھوڑ دیا۔ میرے اپنے عزیز چھوڑ گئے۔ مجھے رشتہ دار چھوڑ گئے سب چھوڑ گئے۔‘‘۔

جنید حفیظ جیل میں کیا کر رہا ہے؟

بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم فل انگلش کرنے کے بعد جنید حفیظ نے اسی شعبے میں وزیٹنگ لیکچرر شپ شروع کی۔ اسی دوران اس پر توہین مذہب کا الزام لگا۔ ملتان کے تھانہ الپہ میں ایف آئی آر درج ہوئی اور 13 مارچ سن 2013 سے وہ جیل کی چار دیواری سے باہر نہیں آ سکا۔ اس کے والد حفیظ النصیر کے مطابق اس نے جیل میں بھی ایک کام نہیں چھوڑا اور وہ ہے کتابیں پڑھنا۔

’’میرا بیٹا جنید انتہائی حساس ہے۔ خیر اس نے بات سمجھ لی۔ اس نے پھر کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ میں اس کے لیے ہر ہفتے تین سے چار کتابیں لے جاتا ہوں۔ وہ پڑھ لیتا ہے تو وہ میں واپس لے آتا ہوں اور اگلے ہفتے اسے دوسری کتابیں دے آتا ہوں۔ اس نے اس وقت تک پانچ ہزار کتابیں پڑھ لی ہیں۔ اگر وہ کتابیں نہ پڑھتا تو میرا خیال ہے کہ اب تک وہ پاگل ہو چکا ہوتا یا مر گیا ہوتا‘‘۔

’’اس کیس میں ساڑھے چھ سال میں ہمارے نو جج تبدیل ہوئے ہیں اور جو ہمارے مخالف تھے، اور سنا ہے کہ اس کے پیچھے بڑے لمبے ہاتھ تھے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہمیں اسپورٹ نہ ملے۔ جو جج تھوڑی سماعت کرتے تھے تو ان کی سمجھ میں اتنا آتا تھا کہ معاملہ ایسے نہیں۔ تو پھر ان کا تبادلہ کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح پراسیکیوٹر بھی اپنی مرضی کے آ رہے ہیں جا رہے ہیں‘‘۔

جنید کے والد کی امید اور آس زندہ ہے،’’انشاء اللہ ہمیں مکمل اعتماد ہے، مکمل امید ہے، پاکستانی عدلیہ پر کہ وہ صحیح فیصلہ کرے گی اور انشاءاللہ میرا بیٹا باعزت بری ہو گا اور جلد ہو گا ‘‘۔

VOA

Comments are closed.